Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 188
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بالْبَاطِلِ : ناحق وَتُدْلُوْا : اور (نہ) پہنچاؤ بِهَآ : اس سے اِلَى الْحُكَّامِ : حاکموں تک لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھاؤ فَرِيْقًا : کوئی حصہ مِّنْ : سے اَمْوَالِ : مال النَّاسِ : لوگ بِالْاِثْمِ : گناہ سے وَاَنْتُمْ : اور تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ اور نہ انھیں حاکموں کی طرف لے جاؤ، تاکہ لوگوں کے مالوں میں سے ایک حصہ گناہ کے ساتھ کھا جاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو۔
وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ۔۔ : روزے کی حالت میں اللہ کے حکم سے آدمی تین نہایت مرغوب اور حلال چیزیں ترک کردیتا ہے، اس مناسبت سے اب حرام سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ جو مال بھی ناجائز طریقے سے حاصل کیا جائے، خواہ اس میں مالک کی رضا مندی بھی شامل ہو، وہ باطل (یعنی ناحق) طریقے سے کھانا ہے، مثلاً سود، زنا کی اجرت، نجومی کی فیس، شراب کی فروخت، لاٹری یا جوئے کے ذریعے سے کمائی یا گانے بجانے کی اجرت، الغرض تمام ناجائز وسائل باطل کے ساتھ کمانے میں آجاتے ہیں۔ (وَتُدْلُوْا) یہ باب افعال کے مصدر ”اِدْلاَءٌ“ سے جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے، جو ”دَلْوٌ“ سے بنا ہے، جس کا معنی ڈول ہے۔ ”اِدْلاَءٌ“ کا اصل معنی ڈول ڈالنا ہے، جیسا کہ سورة یوسف میں ہے : (فَاَدْلٰى دَلْوَهٗ) [ یوسف : 19 ] ”تو اس نے اپنا ڈول ڈالا۔“ پھر کوئی چیز کسی کی طرف لے جانے یا بھیجنے کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔ حکام کی طرف لے جانے کے دو معنی ہیں اور دونوں یہاں مراد ہیں، ایک یہ کہ آدمی کو معلوم ہے کہ فلاں زمین یا مال فلاں شخص کا ہے، مگر اس کے پاس ثبوت نہیں، اگر میں مقدمہ کر دوں تو عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ کروانے میں کامیاب ہوجاؤں گا، چناچہ وہ حاکم کے پاس مقدمہ لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ (وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ) یعنی جانتے ہوئے ایسا کرنا تو نہایت برا ہے۔ ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”یاد رکھو ! میں ایک بشر ہی ہوں اور میرے پاس جھگڑنے والے آتے ہیں، تو شاید ان میں سے ایک اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ زبان آور ہو تو میں اسے سچا سمجھتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، سو میں جس کے لیے کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے، خواہ وہ اسے لے لے یا اسے چھوڑ دے۔“ [ بخاری، المظالم، باب إثم من خاصم وہو بعلمہ : 2458 ] بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قاضی جس کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ کر دے وہ اس کے لیے حلال ہوجاتی ہے، لیکن اس آیت اور حدیث سے ان کی بات کا باطل ہونا ظاہر ہے۔ دوسرا معنی اس آیت کا یہ ہے کہ حکام کو بطور رشوت مال دے کر دوسرے کا حق باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔ ”رِشَاءٌ“ ڈول کی رسی کو کہتے ہیں، جس کے ذریعے سے پانی نکالا جاتا ہے، اسی طرح راشی رشوت کے ذریعے سے اپنا مطلب حاصل کرتا ہے۔ ”رَاشِیْ“ رشوت دینے والا اور ”مُرْتَشِیْ“ رشوت لینے والا۔ ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت فرمائی۔ [ ترمذی، الأحکام، باب ما جاء فی الراشی۔۔ : 1337، و صححہ الألبانی ] اگر اپنا حق لینے کے لیے تاوان دینا پڑے تو یہ رشوت نہیں، اگرچہ جہاں تک ہو سکے اس سے بھی بچنا لازم ہے، کیونکہ یہ گناہ میں اور بری عادت ڈالنے میں مدد ہے، ہاں کوئی بےبس ہوجائے تو الگ بات ہے۔
Top