Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 155
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ : اور ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں بِشَيْءٍ : کچھ مِّنَ : سے الْخَوْفِ : خوف وَالْجُوْعِ : اور بھوک وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَنْفُسِ : اور جان (جمع) وَالثَّمَرٰتِ : اور پھل (جمع) وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں آپ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اور یقینا ہم تمہیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔
مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے انسان کو اذیت پہنچے، وہ خواہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ (قرطبی، شوکانی) (اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ) یہ ایک ایسا کلمہ ہے کہ دل کی حاضری سے کہا جائے تو اس میں اس بات کا اظہار بھی ہے کہ ہم اللہ کی ملکیت اور اس کے بندے ہیں اور اس کا بھی کہ ہمیں ہر حال میں اس کے پاس واپس جانا ہے۔ وہ جب چاہے، جسے چاہے واپس بلائے، اس پر شکوہ و شکایت کا کیا موقع ہے ؟ اس سے انسان کو صبر کی توفیق ملتی ہے اور صبر کرنے والوں کو تین نعمتیں ملتی ہیں : 1 رب کی مہربانیاں۔ 2 اس کی بہت بڑی رحمت (َرَحْمَةٌ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے)۔ اور ہدایت یافتہ ہونے کی سند۔ قرآن مجید میں صبر کا ذکر ستر (70) دفعہ آیا ہے۔ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ اس میں لفظ ”اِذَآ“ میں اشارہ ہے کہ مصیبت پہنچتے ہی صبر کرنا اور ”اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ“ کہنا چاہیے، بعد میں رو دھو کر تو ہر شخص ہی صبر کرلیتا ہے۔ انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُوْلٰی) [ بخاری، الجنائز، باب زیارۃ القبور : 1283 ] ”صبر صرف وہ ہے جو پہلی چوٹ کے وقت ہو۔“ ام المومنین ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ”کوئی مسلمان جسے کوئی مصیبت پہنچے اور وہ وہی کلمہ کہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے (یعنی یہ دعا پڑھے) : (إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ، اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَ أَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا) (یقیناً ہم اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، اے اللہ ! مجھے میری مصیبت میں اجر عطا فرما اور مجھے اس کی جگہ اس سے بہتر عطا فرما) تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر عطا فرماتا ہے۔“ ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ پھر جب (میرے خاوند) ابو سلمہ ؓ فوت ہوئے تو میں نے کہا مسلمانوں میں ابو سلمہ ؓ سے بہتر کون ہوگا ؟ پہلا گھرانہ جس نے رسول اللہ ﷺ کی طرف ہجرت کی۔ پھر میں نے یہ (مذکورہ بالا) کلمہ کہہ لیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ مجھے رسول اللہ ﷺ عطا فرما دیے۔ [ مسلم، الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ : 918 ]
Top