Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 99
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَ جَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا لَّا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ فَاَبَى الظّٰلِمُوْنَ اِلَّا كُفُوْرًا
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : انہوں نے نہیں دیکھا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین قَادِرٌ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ يَّخْلُقَ : کہ وہ پیدا کرے مِثْلَهُمْ : ان جیسے وَجَعَلَ : اس نے مقرر کیا لَهُمْ : ان کے لیے اَجَلًا : ایک وقت لَّا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں فَاَبَى : تو قبول نہ کیا الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِلَّا كُفُوْرًا : ناشکری کے سوا
اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ بیشک وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اس پر قادر ہے کہ ان جیسے پیدا کر دے اور اس نے ان کے لیے ایک وقت مقرر کیا ہے، جس میں کچھ شک نہیں، پھر (بھی) ظالموں نے کفر کے سوا (ہر چیز سے) انکار کردیا۔
”اَوَلَمْ يَرَوْا“ کا معنی ”أَوَلَمْ یَعْلَمُوْا“ ہے، یعنی ”کیا انھیں معلوم نہیں ؟“ دیکھیے سورة فیل اور ابراہیم (24) مطلب یہ کہ انھیں معلوم ہے۔ ”لَمْ“ کے اوپر ہمزہ استفہام برائے توبیخ آیا تو اثبات کا مفہوم پیدا ہوگیا، کیونکہ نفی کی نفی اثبات ہوتا ہے۔ اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۔۔ : یہ ان کے قیامت کے انکار کا عقلی جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا، وہ ان جیسوں کو بھی پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے، کیونکہ زمین و آسمان کی پیدائش ان کی پیدائش سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ دیکھیے سورة یس (81) ، احقاف (33) ، مومن (57) اور نازعات (27)۔ اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ : ”ان جیسوں“ سے مراد یہ ہے کہ وہ ان کو دوبارہ پیدا کرسکتا ہے۔ ”مِثْلَهُمْ“ کا لفظ تحقیر کے لیے ہے، جیسے کہا جاتا ہے، تیرے جیسے ذلیل ہی ہوتے ہیں، تیرے جیسوں کی کیا مجال ہے ؟ مطلب یہ کہ تمہاری کیا مجال ہے ؟ دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ جس نے آسمان و زمین پیدا کیے وہ اس بات پر قادر ہے کہ ان کی جگہ ان جیسے اور لوگ پیدا کر دے جو اسے ایک مانیں، اس قسم کے فاسد شبہات سے پاک ہوں اور قیامت برپا کرنے میں اس کی کمال حکمت کے قائل ہوں، جیسا کہ فرمایا : (وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ) [ محمد : 38 ] ”اور اگر تم پھر جاؤ تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا، پھر وہ تم جیسے نہیں ہوں گے۔“ دونوں معنی ہی درست ہیں۔ وَجَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا۔۔ : ”جَعَلَ“ کا عطف ”قَادِرٌ“ پر ہے جو ”قَدَرَ“ کی طرح ہے، یعنی وہ ان جیسے لوگ پیدا کرنے پر قادر ہے اور اس نے ان سب کے مرنے اور دوبارہ اٹھائے جانے کا وقت مقرر کر رکھا ہے، جس کی آمد میں کوئی شبہ نہیں، لہٰذا محض تاخیر کو دیکھ کر دوبارہ اٹھائے جانے کا انکار سراسر حماقت ہے۔ دیکھیے سورة ہود (103، 104)۔
Top