Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 66
رَبُّكُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
رَبُّكُمُ : تمہارا رب الَّذِيْ : وہ جو کہ يُزْجِيْ : چلاتا ہے لَكُمُ : تمہارے لیے الْفُلْكَ : کشتی فِي الْبَحْرِ : دریا میں لِتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : نہایت مہربان
تمہارا رب وہی ہے جو تمہارے لیے سمندر میں کشتیاں چلاتا ہے، تاکہ تم اس کا کچھ نہ کچھ فضل تلاش کرو۔ یقینا وہ ہمیشہ سے تم پر بےحد مہربان ہے۔
رَبُّكُمُ الَّذِيْ يُزْجِيْ لَكُمُ۔۔ : ”أَزْجٰی یُزْجِیْ إِزْجَاءً“ کا معنی آہستہ آہستہ چلانا ہے۔ ”أَزْجٰی فُلاَنٌ الإِْبِلَ“ فلاں نے اونٹوں کو آہستہ آہستہ ہانکا۔ بادلوں کو آہستہ آہستہ چلانے کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ (دیکھیے نور : 43) ”الْفُلْكَ“ واحد، جمع اور مذکر و مؤنث سب کے لیے یہی لفظ استعمال ہوتا ہے، بہت بڑی کشتی یعنی بحری جہاز۔ ”مِنْ فَضْلِهٖ“ قرآن مجید میں روزی کو اکثر فضل فرمایا ہے، کیونکہ دنیا میں جو بھی نعمتیں انسان کو میسر ہیں، یا آخرت میں عطا ہوں گی، وہ محض اللہ کا فضل ہیں، کسی کا اللہ پر کوئی حق واجب نہیں اور اگر کہیں بندوں کا حق کہا گیا ہے تو وہ بھی اللہ ہی کا فضل ہے کہ اس نے اسے اپنے ذمے لازم فرما لیا۔ زمین کا تقریباً ستر فیصد حصہ سمندر ہے، اس میں انسان کے کھانے پینے اور استعمال کے لیے بےحساب رزق موجود ہے۔ سمندر کے پانی میں ہزاروں ٹن وزنی جہاز اٹھانے کی صلاحیت اور صرف ہوا کے ذریعے سے جہازوں کو سیکڑوں ہزاروں میل دھکیل کرلے جانا صرف اللہ تعالیٰ کے مسخر کرنے کی وجہ سے ہے۔ اب اس کا مزید فضل ہوا تو انجن ایجاد ہوگئے، جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے (وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ) [ النحل : 8 ] (اور وہ پیدا کرے گا جو تم نہیں جانتے) میں فرمایا ہے۔ اس میں مسلمانوں کو سمندر کے بیشمار منافع، مثلاً نہایت آسان اور کم خرچ ذریعے سے تعلیم، تجارت اور دوسرے مقاصد کے لیے سفر کی سہولت، گوشت، زینت کی اشیاء، معدنیات، گیس اور تیل وغیرہ حاصل کرنے کی ترغیب بھی ہے، جن سے کفار فائدہ اٹھا رہے ہیں، کیونکہ سمندروں پر ان کا غلبہ ہے اور ظاہر ہے تیس فیصد خشکی پر بھی وہی غالب ہوگا جو ستر فیصد سمندر پر غالب ہے اور امت مسلمہ بری و بحری جہاد چھوڑنے کی وجہ سے دین و دنیا دونوں میں پیچھے رہنے پر قانع ہوچکی ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو نشانہ بازی، شہ سواری اور تیراکی سیکھنے کی بہت ترغیب دلائی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سلسلہ صحیحہ (1؍625، ح : 315) اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ہی اسلام کو تمام دنیا کے ادیان پر غالب کرنا بیان فرمایا۔ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِـيْمًا : سمندر میں جہازوں کو چلانے کی پہلی وجہ اللہ کے فضل کی تلاش بیان فرمائی، یہ دوسری وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ہمیشہ سے بیحد مہربان ہے۔ ہمیشہ کا مفہوم ”کَانَ“ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ طنطاوی کے الفاظ ہیں : ”وَلِأَنَّہُ سُبْحَانَہُ کَانَ أَزَلاً وَ أَبَدًا بِکُمْ دَاءِمُ الرَّحْمَۃِ وَالرَّأْفَۃِ“ ”کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنے بندوں کے ساتھ نرمی و رحمت کرنے والا ہے۔“
Top