Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 50
قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِیْدًاۙ
قُلْ : کہ دیں كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ حِجَارَةً : پتھر اَوْ : یا حَدِيْدًا : لوہا
کہہ دے تم کسی قسم کے پتھر بن جاؤ، یا لوہا۔
قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً۔۔ : مطلب یہ کہ مٹی میں تو پھر بھی نباتات کی صورت میں زندگی کے آثار نظر آجاتے ہیں، تم کوئی ایسی چیز بن کر دیکھ لو جو کسی طرح بھی زندگی قبول نہ کرسکتی ہو، مثلاً پتھر، لوہا یا کوئی بھی مخلوق جس کا زندہ ہونا تمہارے دلوں میں ان سے بھی بڑی بات ہو، پھر بھی اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ زندہ کرکے اٹھا لے گا۔ قُلِ الَّذِيْ فَطَرَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ : یعنی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا وہی تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا، کیونکہ پہلی بار کسی چیز کا پیدا کرنا مشکل اور دوبارہ آسان ہوتا ہے، تو پھر اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ تمہیں دوبارہ زندگی دے۔ (دیکھیے روم : 19) جبکہ اس کے لیے پہلی اور دوسری مرتبہ پیدا کرنا دونوں یکساں آسان ہیں۔ rnۚ فَسَيُنْغِضُوْنَ اِلَيْكَ رُءُوْسَهُمْ۔۔ : ”أَنْغَضَ یُنْغِضُ“ (افعال) کا معنی تعجب یا مذاق کے طور پر سر ہلانا ہے، یعنی لاجواب ہو کر پوچھیں گے، اچھا تو وہ قیامت کب ہوگی ؟ آپ ان سے کہہ دیں کہ جب اس کا آنا یقینی ہے تو تمہارا یہ سوال بےکار ہے، جب اس نے آ کر ہی رہنا ہے تو چاہے وہ کتنی دور ہو اسے قریب ہی سمجھو اور اپنی نجات کی فکر کرو۔ اس کی مثال اس نالائق طالب علم کی ہے جسے معلوم ہو کہ امتحان لازماً ہونا ہے، مگر وہ اس کا ہونا اس لیے تسلیم نہ کرے یا اس کے لیے تیاری نہ کرے کہ اس کے منعقد ہونے کی تاریخ معلوم نہیں، یا اس لیے کہ وہ ابھی فوراً کیوں منعقد نہیں ہو رہا۔ ظاہر ہے یہ سراسر حماقت ہے۔
Top