Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 32
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا
وَلَا تَقْرَبُوا : اور نہ قریب جاؤ الزِّنٰٓى : زنا اِنَّهٗ : بیشک یہ كَانَ : ہے فَاحِشَةً : بےحیائی وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ
اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بیشک وہ ہمیشہ سے بڑی بےحیائی ہے اور برا راستہ ہے۔
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى۔۔ :”فَاحِشَةً“ ایسا قول و فعل جو نہایت قبیح ہو۔ پچھلی آیت میں قتل اولاد سے منع فرمایا، جو نسل انسانی فنا کرنے کا باعث ہے اور اس آیت میں زنا کے قریب جانے سے منع فرمایا، کیونکہ یہ حد سے بڑھی ہوئی برائی کے ساتھ نسب کا نظام خراب کرنے کا باعث ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خاوند کو نہ بیوی پر اعتماد رہے گا اور نہ اسے اولاد کے اپنا ہونے کا یقین ہوگا، وہ غیرت کی وجہ سے بیوی بچوں کو قتل بھی کرسکتا ہے، جیسا کہ اکثر خبریں آتی رہتی ہیں۔ اگر یہ رسم بد عام ہوجائے تو رشتہ داری کا سارا نظام، جو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، ختم ہوجائے گا، نہ باپ کا پتا، نہ کوئی چچا نہ دادا، نہ ان کی اولاد کا علم، نہ ان سے کوئی تعلق نہ رشتہ داری، بلکہ انسان اور حیوان کا فرق ہی ختم ہوجائے گا۔ اس خبیث فعل کی سزا اس وقت مغربی اقوام بھگت رہی ہیں اور انھیں مسلمانوں کے نظام نسب پر شدید حسد ہے، جس کی وجہ سے وہ ان میں بھی بےحیائی اور زنا پھیلانے کا ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زنا اور بعض دوسرے کاموں کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے اور بعض کاموں کا ارتکاب کرنے سے منع کیا ہے۔ آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کام کی رغبت طبعی طور پر آدمی کے دل میں ہو اس کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا، جیسے زنا کہ جنسی جذبہ آدمی کا سب سے غالب جذبہ ہے، چناچہ فرمایا : (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى) [ بنی إسرائیل : 32 ] اور فرمایا : (وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰى يَـطْهُرْنَ) [ البقرۃ : 222 ] ”اور ان کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں۔“ اسی طرح یتیم کے مال کے قریب احسن طریقے سے جانے کے سوا منع فرما دیا، کیونکہ مال کی حرص طبعی جذبہ ہے، چناچہ فرمایا : (وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ) [ بنی إسرائیل : 34 ] البتہ قتل کے ارتکاب سے منع کیا، فرمایا : (وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَةَ اِمْلَاقٍ) [ بنی إسرائیل : 31 ] اور فرمایا : (وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ) [ بنی إسرائیل : 33 ] کیونکہ کسی کو قتل کرنا انسان کا طبعی تقاضا نہیں ہے۔ 3 اللہ تعالیٰ نے زنا کے تمام راستے بھی بند فرما دیے جن میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے : 1 اجنبی عورت کے ساتھ خلوت حرام فرما دی، اسی طرح مردوں کو عورتوں سے عام میل جول سے بھی منع فرما دیا۔ چناچہ عبداللہ بن عباس ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (لاَ تُسَافِرِ الْمَرْأَۃُ إِلاَّ مَعَ ذِيْ مَحْرَمٍ وَلاَ یَدْخُلُ عَلَیْہَا رَجُلٌ إِلاَّ وَ مَعَہَا مَحْرَمٌ) [ بخاری، جزاء الصید، باب حج النساء : 1862 ] ”کوئی عورت سفر نہ کرے مگر کسی محرم کے ساتھ اور اس کے پاس کوئی مرد نہ جائے مگر اس صورت میں کہ اس عورت کے پاس کوئی محرم موجود ہو۔“ مسلم کی اسی روایت میں ہے : (لاَ یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِاِمْرَأَۃٍ) [ مسلم، الحج، باب سفر المرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ : 1341 ]”کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ اکیلا نہ ہو۔“ اسی طرح عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِیَّاکُمْ وَالدُّخُوْلَ عَلَی النِّسَاءِ ، فقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَفَرَأَیْتَ الْحَمْوَ ؟ قَالَ اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ) [ بخاری، النکاح، باب لا یخلون رجل بامرأۃ۔۔ : 5232۔ مسلم : 2172 ] ”عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔“ ایک انصاری آدمی نے پوچھا : ”آپ ”حَمْوٌ“ (خاوند کے قریبی مثلاً اس کے بھائی یا چچا زاد یعنی کزن وغیرہ) کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟“ فرمایا : ”حمو“ تو موت ہے (مطلب یہ کہ اس کا زنا تو بعض اوقات موت تک پہنچا دیتا ہے)۔“ 2 مردوں اور عورتوں دونوں کو نگاہ نیچی رکھنے اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کا حکم دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نور (30، 31) کیونکہ آنکھیں اور کان دل کا دروازہ ہیں۔ ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : (إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا، أَدْرَکَ ذٰلِکَ لاَ مَحَالَۃَ ، فَزِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ ، وَ زِنَا اللِّسَان المَنْطِقُ ، وَالنَّفْسُ تَتَمَنَّی وَتَشْتَھِيْ ، وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذِٰلکَ کُلَّہُ وَ یُکَذِّبُہُ) [ بخاری، الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج : 6243۔ مسلم : 2657 ] ”اللہ نے ابن آدم پر زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، جسے وہ لامحالہ پانے والا ہے، پس آنکھوں کا زنا ان کا دیکھنا ہے، کانوں کا زنا ان کا سننا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور نفس تمنا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔“ 3 عورتوں کو پردے کا حکم دیا اور زینت کے اظہار سے سخت منع فرمایا۔ دیکھیے سورة نور (31) اور سورة احزاب (33) اس کے ساتھ ہی مردوں اور عورتوں کے نکاح کی تاکید فرمائی اور نکاح کو نہایت آسان بنادیا، اگر وسائل مہیا نہ ہوں تو پاک دامن رہنے کی انتہائی کوشش کا حکم دیا۔ دیکھیے سورة نور (32، 33) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَ أَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَ مَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بالصَّوْمِ ، فَإِنَّہُ لَہُ وِجَاءٌ) [ بخاری، الصوم، باب الصوم لمن خاف علی نفسہ العزبۃ : 1905۔ مسلم : 1400 ] ”تم میں سے جو شخص ضروریات نکاح رکھتا ہو وہ نکاح کرے، کیونکہ یہ نظر کو نیچا رکھنے اور شرم گاہ کو (زنا سے) محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے اور جو طاقت نہ رکھے وہ روزے کو لازم پکڑے، کیونکہ وہ اس کے لیے (شہوت کو) کچلنے کا باعث ہے۔“ 4 زنا کرنے والوں پر، مرد ہوں یا عورت، انتہائی احتیاط کے ساتھ ثبوت قائم کرنے اور پوری شدت کے ساتھ حد نافذ کرنے کا حکم دیا۔ کنواری اور کنوارے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال جلاوطنی کی حد مقرر فرمائی، جو رجم سے بہت کم ہے اور غیر کنوارے مرد اور عورت کے لیے سو کوڑے اور رجم کی سزا مقرر فرمائی جو انتہائی سخت سزا ہے۔ اس کی واضح احادیث صحیحین وغیرہ میں معروف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اللہ کی حد نافذ ہو تو معاشرہ اس گندگی سے بالکل پاک ہوجائے۔ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً :”كَانَ“ دوام کے معنی کے لیے ہے۔ طنطاوی ؓ نے اس جگہ ”كَانَ“ کو ”مَا زَالَ“ (ہمیشہ سے) کے معنی میں لیا ہے اور ”فَاحِشَةً“ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ”بیشک وہ ہمیشہ سے بڑی بےحیائی ہے اور برا راستہ ہے۔“ ظاہر ہے کہ زنا بےحیائی میں حد سے بڑھا ہوا کام ہے جو خاندانوں، نسلوں اور معاشروں کو برباد کردیتا ہے اور خوف ناک جسمانی اور روحانی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا : برا راستہ اس لیے ہے کہ اگر یہ کھل جائے تو اس پر چل کر لوگ آپ کے گھر بھی آپہنچیں گے، پھر کسی کی ماں، بیٹی، بیوی یا بہن کی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔ یہی بات آپ ﷺ نے اس نوجوان کو سمجھائی تھی جس نے آپ سے زنا کی اجازت مانگی تھی۔ سیدنا ابو امامہ ؓ بیان کرتے ہیں : ”ایک نوجوان رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے زنا کی اجازت چاہی۔ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے، اسے ڈانٹا اور کہا کہ خاموش ہوجا، تاہم آپ ﷺ نے فرمایا : (اُدْنُہْ) (میرے) قریب آ۔“ وہ قریب آیا اور جب بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا : (أَتُحِبُّہُ لِأُمِّکَ ؟) ”کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند کرتا ہے ؟“ اس نے کہا :”نہیں، اللہ کی قسم ! اے اللہ کے رسول ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے (ہر گز نہیں)۔“ آپ نے فرمایا : (وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِأُمَّھَاتِھِمْ) ”تو لوگ بھی اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔“ پھر آپ نے فرمایا : (أَفَنُحِبُّہُ لابْنَتِکَ ؟) ”اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے ؟“ اس نے کہا : ”نہیں، اللہ کی قسم ! اے اللہ کے رسول ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے (ہرگز نہیں)۔“ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِبَنَاتِھِمْ) ”لوگ بھی اس کام کو اپنی بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔“ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : (أَ فَتُحِبُّہُ لِأُخْتِکَ ؟) ”کیا تو اس کام کو اپنی بہن کے لیے پسند کرتا ہے ؟“ اس نے کہا : ”نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔“ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِأَخَوَاتِھِمْ) ”لوگ بھی اس کام کو اپنی بہنوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔“ پھر آپ ﷺ نے پوچھا : (أَ فَتُحِبُّہُ لِعَمَّتِکَ) ”کیا تو اس کام کو اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرتا ہے ؟“ اس نے کہا : ”نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : (وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِعَمَّاتِھِمْ) ”لوگ بھی اس کام کو اپنی پھوپھیوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔“ پھر آپ ﷺ نے پوچھا : (أَ فَتُحِبُّہُ لِخَالَتِکَ ؟) ”کیا تو اس کام کو اپنی خالہ کے لیے پسند کرتا ہے ؟“ اس نے کہا : ”نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے (ہرگز نہیں)۔“ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (وَلَا النَّاسُ یُحِبُّوْنَہُ لِخَالَاتِھِمْ) ”لوگ بھی اس کام کو اپنی خالاؤں کے لیے پسند نہیں کرتے۔“ پھر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا اور یہ دعا کی : (اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَہُ ، وَ طَھِّرْ قَلْبَہُ وَ حَصِّنْ فَرْجَہُ) ”الٰہی ! اس کے گناہ بخش، اس کے دل کو پاک کر اور اسے عصمت والا بنا۔“ پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان ایسے کسی کام کی طرف نہیں جھانکتا تھا۔“ [ مسند أحمد : 5؍256، 257، ح : 22274 ]
Top