Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 15
مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا١ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ؕ وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا
مَنِ : جس اهْتَدٰى : ہدایت پائی فَاِنَّمَا : تو صرف يَهْتَدِيْ : اس نے ہدایت پائی لِنَفْسِهٖ : اپنے لیے وَمَنْ : اور جو ضَلَّ : گمراہ ہوا فَاِنَّمَا : تو صرف يَضِلُّ : گمراہ ہوا عَلَيْهَا : اپنے اوپر (اپنے بڑے کو) وَلَا تَزِرُ : اور بوجھ نہیں اٹھاتا وَازِرَةٌ : کوئی اٹھانے والا وِّزْرَ اُخْرٰى : دوسرے کا بوجھ وَ : اور مَا كُنَّا : ہم نہیں مُعَذِّبِيْنَ : عذاب دینے والے حَتّٰى : جب تک نَبْعَثَ : ہم (نہ) بھیجیں رَسُوْلًا : کوئی رسول
جس نے ہدایت پائی تو وہ اپنی ہی جان کے لیے ہدایت پاتا ہے اور جو گمراہ ہوا تو اسی پر گمراہ ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری (جان) کا بوجھ نہیں اٹھاتی اور ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں، یہاں تک کہ کوئی پیغام پہنچانے والا بھیجیں۔
مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْــتَدِيْ لِنَفْسِهٖ۔۔ : مطلب یہ ہے کہ جو شخص سیدھے راستے پر چلتا ہے وہ کسی پر احسان نہیں کرتا، بلکہ اس کا فائدہ اسی کو پہنچتا ہے اور جو اس سے ہٹ کر غلط راستے پر چلتا ہے تو اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا۔ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۔۔ :”تَزِرُ“ ”وَزَرَ یَزِرُ وِزْرًا“ (ض) بوجھ اٹھانا۔ ”وَازِرَةٌ“ اسم فاعل ہے اور ”نَفْسٌ“ کی صفت ہے جو یہاں پوشیدہ ہے، یعنی کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، بلکہ ہر ایک کو اپنا بوجھ خود اٹھانا پڑے گا۔ اس مفہوم کی کئی آیات ہیں، دیکھیے سورة انعام (164) اور سورة فاطر (18) وغیرہ۔ بعض آیات میں کچھ لوگوں کے اپنے گناہوں کے ساتھ دوسروں کے گناہ بھی اٹھانے کا ذکر ہے، جیسا کہ سورة نحل (25) اور عنکبوت (13) میں ہے :”وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور ان کے بھی جن کو وہ بغیر علم کے گمراہ کرتے رہے۔“ تو یہ دراصل دوسروں کا بوجھ نہیں بلکہ دوسروں کو گمراہ کرنے کی وجہ سے خود ان کا اپنا بوجھ ہے، گناہ کرنے والے اپنا بوجھ خود اٹھائیں گے۔ سورة مائدہ (32) میں آدم ؑ کے قاتل بیٹے پر ہر قتل کے گناہ کا ایک حصہ ڈالے جانے کا مطلب بھی یہی ہے۔ اسی طرح ابن عمر ؓ سے مروی حدیث کہ ”میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے سے عذاب ہوتا ہے“ کا مطلب بھی اہل علم نے یہ بیان فرمایا کہ جب مرنے والا اس کی وصیت کر گیا ہو، یا اسے معلوم ہو کہ گھر والے ایسا کریں گے، مگر اس نے انھیں منع نہ کیا ہو، کیونکہ اس پر لازم تھا کہ گھر والوں کو بھی اللہ کی نافرمانی سے بچاتا۔ (دیکھیے تحریم : 6) اگر اس کے منع کرنے کے باوجود کوئی شخص بین کرتا ہے، یا گریبان چاک کرتا ہے تو وہ اس سے بری ہے۔ امام بخاری ؓ نے ”کِتَابُ الْجَنَاءِزِ“ میں باب باندھا ہے : ”بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَذَّبُ الْمَیِّتُ بِبَعْضِ بُکَاءِ أَھْلِہِ عَلَیْہِ“ یعنی رسول اللہ ﷺ کا فرمان کہ میت کو اس کے گھر والوں کے بعض قسم کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔ امام بخاری ؓ نے فرمایا ہے : ”إِذَا کَان النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِہٖ“ یعنی یہ اس وقت ہے جب بین کرنا اور سننا میت کا طریقہ اور معمول ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا) [ التحریم : 6 ] ”اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔“ اور نبی ﷺ نے فرمایا : (کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُوْلٍ عَنْ رَّعِیَّتِہِ) [ بخاري، النکاح، باب المرأۃ راعیۃ۔۔ : 5200 ] ”تم میں سے ہر ایک حکمران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہونے والا ہے۔“ تو جب یہ میت کا معمول اور طریقہ نہ ہو تو وہ ام المومنین عائشہ ؓ کے فرمانے کے مطابق (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى) [ الأنعام : 164 ] (اور کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی) کا مصداق ہوگا، یعنی اسے عذاب نہیں ہوگا اور وہ اس فرمانِ الٰہی کی طرح ہوگا : (وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ) [ فاطر : 18 ] ”اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہوئی (جان) اپنے بوجھ کی طرف بلائے گی تو اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا۔“ [ بخاری، الجنائز، باب قول النبي ﷺ : یعذب المیت ببعض بکاء أھلہ علیہ۔۔ ، قبل ح : 1284 ] وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا : یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے عدل کا بیان ہے، فرمایا کہ جب تک ہم کوئی پیغام پہنچانے والا نہ بھیجیں جو ان تک اللہ کے احکام پہنچا دے اور حجت پوری ہوجائے ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں۔ یہاں بعض مفسرین نے بچپن یا زمانۂ جاہلیت میں فوت ہونے والوں کے متعلق مختلف اقوال اور ان کے دلائل کے ساتھ لمبی بحث کی ہے، مگر ایسی کہ آدمی کسی نتیجے پر نہیں پہنچتا، اس لیے میں اس بحث کو واضح طریقے سے تحریر کرتا ہوں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بچپن میں فوت ہوجانے والے بچے، خواہ مسلمانوں کے ہوں یا مشرکین کے، ان کو عذاب نہیں ہوگا۔ امام بخاری ؓ نے ”بَابُ مَا قِیْلَ فِيْ أَوْلَادِ الْمُشْرِکِیْنَ“ میں اس کے متعلق پہلے ابن عباس اور ابوہریرہ ؓ کی روایات ذکر کی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کے بچوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : (اَللّٰہُ أَعْلَمُ بِمَا کَانُوْا عَامِلِیْنَ) [ بخاری، الجنائز : 1383، 1384 ] ”اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو وہ عمل کرنے والے تھے۔“ اس کے بعد ابوہریرہ ؓ کی حدیث بیان کی کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبْوَاہُ یُھَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ ، کَمَثَلِ الْبَھِیْمَۃِ تُنْتَجُ الْبَھِیْمَۃَ ، ھَلْ تَرَی فِیْھَا جَدْعاءَ ؟) [ بخاری : 1385 ] ”ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا اسے نصرانی بنا دیتے ہیں، یا اسے مجوسی بنا دیتے ہیں، جیسے چوپایہ پیدا ہوتا ہے (تو مکمل اعضا والا ہوتا ہے) کیا تم ان میں کوئی کان کٹا دیکھتے ہو۔“ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر بچہ مسلمان پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد سمرہ بن جندب ؓ کی طویل حدیث بیان فرمائی ہے، جس میں ہے کہ جبریل اور میکائیل ؑ نے رسول اللہ ﷺ کو ایک رات اپنے ساتھ لے جا کر بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کروایا، اس حدیث میں ہے کہ ہم ایک سرسبز باغ میں پہنچے جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا، اس کی جڑ کے پاس ایک بزرگ اور بہت سے بچے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ان مشاہدات کی حقیقت پوچھی تو فرشتوں نے تمام مشاہدات کے آخر میں سب کی حقیقت بیان کی اور اس مشاہدے کے متعلق بتایا کہ یہ بزرگ ابراہیم ؑ تھے اور وہ بچے لوگوں کے بچے تھے۔ [ بخاری : 1386 ] امام بخاری ؓ نے ”کِتَاب التَّعْبِیْرِ ، بَابُ تَعْبِیْرِ الرُّؤْیَا بَعْدَ صَلَاۃِ الصُّبْحِ (7047)“ میں یہی حدیث زیادہ تفصیل سے بیان فرمائی ہے۔ اس میں ہے کہ فرشتوں نے بتایا کہ باغ میں جو لمبے قد کے بزرگ تھے وہ ابراہیم ؑ تھے اور وہ بچے جو ان کے اردگرد تھے وہ ایسے بچے تھے جو فطرت پر فوت ہوئے۔ سمرہ ؓ فرماتے ہیں کہ کچھ مسلمانوں نے پوچھا : (یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! وَ أَوْلاَدُ الْمُشْرِکِیْنَ ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ أَوْلَادُ الْمُشْرِکِیْنَ) ”یا رسول اللہ ! اور مشرکوں کے بچے بھی ؟“ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اور مشرکوں کے بچے بھی۔“ امام بخاری ؓ کی اس ترتیب سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشرکوں کے بچوں کے متعلق کوئی بات نہیں بتائی گئی، آپ نے یہ بات اللہ کے علم کے سپرد فرمائی، مگر جب آپ ﷺ کو آگاہ کردیا گیا تو آپ نے مسلم و مشرک تمام لوگوں کے بچوں کے جنتی ہونے کی صراحت فرما دی۔ البتہ دنیوی احکام میں مشرکوں کے بچوں کا حکم ان کے باپوں والا ہی ہوگا۔ اس لیے جہاد کے دوران حملے میں یا لونڈی و غلام بناتے وقت ان کا حکم مشرکین ہی کا ہوگا۔ ہاں، وہ کلمہ پڑھ لیں تو انھیں مسلمان سمجھا جائے گا۔ رہ گئے اہل فترت و جاہلیت، یعنی عرب کے وہ لوگ جو رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے فوت ہوگئے تو ان تمام کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انھیں اللہ کی طرف سے توحید کا پیغام نہیں پہنچا، بلکہ وہ اپنے آپ کو ملت ابراہیم پر قرار دیتے تھے اور وہ اسماعیل ؑ کی اولاد اور امت تھے۔ ایک لمبی مدت گزرنے کی وجہ سے ممکن ہے دین کے تفصیلی احکام ان کو معلوم نہ رہے ہوں، تاہم اکثریت بلکہ تمام لوگوں کے بت پرستی میں مبتلا ہونے کے باوجود توحید اور دین ابراہیم کا پیغام پہنچانے والے کچھ لوگ ان میں ضرور موجود رہے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کو نبوت ملنے سے پہلے بھی کچھ لوگ بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے، یہ لوگ ”حنفاء“ کہلاتے تھے، ان میں زید بن عمرو بن نفیل اور ورقہ بن نوفل بھی شامل ہیں۔ چناچہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے : (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَقِيَ زَیْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ بِأَسْفَلِ بَلْدَحٍ قَبْلَ أَنْ یَّنْزِلَ عَلَی النَّبِيَّصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْوَحْيُ ، فَقُدِّمَتْ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُفْرَۃٌ فَأَبٰی أَنْ یَّأَکُلَ مِنْھَا، ثُمَّ قَالَ زَیْدٌ إِنِّيْ لَسْتُ آکُلُ مِمَّا تَذْبَحُوْنَ عَلٰی أَنْصَابِکُمْ ، وَلاَ آکُلُ إِلَّا مَا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ ، فَإِنَّ زَیْدَ بْنَ عَمْرٍو کَانَ یَعِیْبُ عَلٰی قُرَیْشٍ ذَبَاءِحَھُمْ وَ یَقُوْلُ الشَّاۃُ خَلَقَھَا اللّٰہُ وَأَنْزَلَ لَھَا مِنَ السَّمَاءِ الْمَاءَ ، وَأَنْبَتَ لَھَا مِنَ الْأَرْضِ ، ثُمَّ تَذْبَحُوْنَھَا عَلٰی غَیْرِ اسْمِ اللّٰہِ ؟ إِنْکَارًا لِذٰلِکَ وَ إِعْظَامًا لَّہُ) [ بخاری، مناقب الأنصار، باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل : 3826 ] ”نبی ﷺ نبوت ملنے سے پہلے زید بن عمرو بن نفیل کو مقام بلدح کے نچلے حصے میں ملے، نبی ﷺ کے سامنے ایک دستر خوان پیش کیا گیا تو اس نے اس سے کھانے سے انکار کردیا، زید نے کہا : ”میں اس میں سے نہیں کھاتا جو تم اپنے نصب کردہ بتوں وغیرہ پر ذبح کرتے ہو اور میں اس کے سوا نہیں کھاتا جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔“ زید بن عمرو قریش پر ان کے ذبیحوں پر عیب لگاتے تھے اور کہتے تھے : ”بھیڑ بکری جو ہے اسے اللہ نے پیدا فرمایا اور اسی نے اس کے لیے آسمان سے پانی اتارا اور زمین سے اس کے لیے پودے اگائے، پھر تم اسے اللہ کے غیر کے نام پر ذبح کرتے ہو۔“ ان کے اس فعل کا انکار کرتے ہوئے اور اسے بہت بڑا گناہ قرار دیتے ہوئے یہ بات کہتے تھے۔“ ورقہ بن نوفل بت پرستی سے بےزار ہو کر نصرانی ہوگئے تھے۔“ [ بخاری، بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی إلٰی رسول اللہ ﷺ : 2 ] اور ظاہر ہے کہ وہ موحد نصرانی بنے ہوں گے، تثلیث والے مشرک نہیں، کیونکہ پھر انھیں بت پرستی چھوڑ کر نصرانی بننے کی ضرورت نہ تھی اور اسی توحید کی وجہ سے انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی نبوت تسلیم کی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ اسماء بنت ابی بکر ؓ فرماتی ہیں : (رَأَیْتُ زَیْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ قَاءِمًا مُسْنِدًا ظَھْرَہُ إِلَی الْکَعْبَۃِ یَقُوْلُ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ! وَاللّٰہِ ! مَا مِنْکُمْ عَلٰی دِیْنِ إِبْرَاھِیْمَ غَیْرِيْ) [ بخاری، مناقب الأنصار، باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل : 3828 ] میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو دیکھا وہ کعبے کے ساتھ پیٹھ کا سہارا لے کر کھڑے کہہ رہے تھے : ”اے قریش کی جماعت ! اللہ کی قسم ! تم میں سے کوئی شخص میرے سوا دین ابراہیم پر نہیں ہے۔“ الغرض جب ابراہیم اور اسماعیل ؑ سے سیکڑوں سال بعد بھی توحید پر قائم اور اس کا پیغام کھلم کھلا کعبہ میں کھڑے ہو کردینے والے موجود تھے تو ان سے پہلے ابراہیم و اسماعیل ؑ کے زمانے کے جس قدر قریب جائیں توحید والے اور اپنے آپ کو دین ابراہیم پر قائم کہنے والے یقیناً موجود رہے ہیں۔ یہ تو یمن سے آنے والے عمرو بن لحی خزاعی کا بیڑا غرق ہوا کہ اس نے کعبہ میں بت لاکر رکھ دیے، جس کے بعد قریش بھی بت پرستی میں مبتلا ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا : (وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ) [ فاطر : 24 ] ”اور کوئی امت نہیں مگر اس میں کوئی نہ کوئی ڈرانے والا گزرا ہے۔“ یہ ڈرانے والا کوئی امتی بھی ہوسکتا ہے، جیسا کہ آج رسول اللہ ﷺ کی وفات کو تقریباً 1421 برس گزر چکے مگر آپ کی دعوت مسلسل دنیا کے ہر خطے میں جاری ہے اور داعیان اسلام بشارت و نذارت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ زمانۂ فترت میں دو قسم کے لوگ ہوسکتے ہیں، بلکہ آج بھی یہ دونوں قسمیں موجود ہیں، ایک وہ جنھیں کسی ذریعے سے توحید کی دعوت پہنچ گئی، خواہ وہ کسی توحید پر قائم شخص کے ذریعے سے پہنچی ہو یا اس کے مخالف کے ذریعے سے، جیسا کہ ابوسفیان نے اپنے زمانۂ کفر میں ہرقل کے سامنے دین اسلام کا بہترین خلاصہ پیش کیا تھا، پھر انھوں نے نہ توجہ سے سنا، نہ سوچنے کی زحمت کی، نہ اسے تسلیم کیا تو ان کے جہنمی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ انھیں صرف اہل فترت ہونے کی وجہ سے جنتی نہیں کہا جاسکتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (كُلَّمَآ اُلْقِيَ فِيْهَا فَوْجٌ سَاَلَهُمْ خَزَنَــتُهَآ اَلَمْ يَاْتِكُمْ نَذِيْرٌ ۝ قَالُوْا بَلٰي قَدْ جَاۗءَنَا نَذِيْرٌ ڏ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ښ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ كَبِيْرٍ ۝ وَقَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْٓ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ 10 ؀ فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ ۚ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِيْرِ) [ الملک : 8 تا 11 ] ”جب بھی اس (جہنم) میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا تو اس کے نگران ان سے پو چھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا ؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں ؟ یقیناً ہمارے پاس ڈرانے والا آیا تو ہم نے جھٹلا دیا اور ہم نے کہا اللہ نے کوئی چیز نہیں اتاری، تم تو ایک بڑی گمراہی میں ہی پڑے ہوئے ہو۔ اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے یا سمجھتے ہوتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں سے نہ ہوتے۔ پس وہ اپنے گناہ کا اقرار کریں گے، سو دوری ہے بھڑکتی ہوئی آگ والوں کے لیے۔“ یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (لَیَنْتَھِیَنَّ أَقْوَامٌ یَفْتَخِرُوْنَ بآبَاءِھِمُ الَّذِیْنَ مَاتُوْا، إِنَّمَا ھُمْ فَحْمُ جَھَنَّمَ ، أَوْ لَیَکُوْنُنَّ أَھْوَنَ عَلَی اللّٰہِ مِنَ الْجُعَلِ الَّذِيْ یُدَھْدِہُ الْخِرَاءَ بِأَنْفِہِ) [ ترمذي، المناقب، باب في فضل الشام والیمن : 3955، حسنہ الألباني ] ”کچھ لوگ جو اپنے ان آباء پر فخر کرتے ہیں جو فوت ہوچکے، جو محض جہنم کے کوئلے ہیں، ان پر فخر کرنے سے باز آجائیں گے ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پاخانے کے اس کیڑے سے بھی ذلیل ہوں گے جو اپنی ناک کے ساتھ پاخانے کو دھکیلتا جاتا ہے۔“ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے زمانۂ جاہلیت میں فوت ہونے والوں کو جہنم کے کوئلے قرار دیا۔ مزید تفصیل سورة توبہ کی آیت (113) کی تشریح میں تفسیر کی کسی بھی کتاب سے دیکھ لیں۔ اب اہل فترت کے صرف وہ لوگ رہ گئے جنھیں واقعی دعوت نہیں پہنچی تو یہ صرف اہل فترت ہی کے ساتھ خاص نہیں، اب بھی اگر دنیا کے کسی خطے میں واقعی کوئی ایسا شخص موجود ہے جسے بالکل دعوت نہیں پہنچی تو اس آیت ”وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا“ کے تحت حجت پوری کیے بغیر اسے عذاب نہیں ہوگا، خواہ وہ حجت قیامت کے دن پوری کی جائے۔ جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے ان لوگوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے آنے والی احادیث میں سے سب سے صحیح حدیث وہ ہے جو اسود بن سریع اور ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”چار آدمی قیامت کے دن اپنی حجت (دلیل) پیش کریں گے، ایک بہرا آدمی جو کچھ نہیں سنتا، ایک احمق آدمی، ایک حد سے بوڑھا اور ایک وہ آدمی جو فترت میں فوت ہوا۔ جو بہرا ہے وہ کہے گا، اے میرے رب ! اسلام آیا تو مجھے کچھ سنائی نہ دیتا تھا، احمق کہے گا، اے میرے رب ! اسلام آیا اور میں کچھ عقل نہ رکھتا تھا اور بچے مجھے مینگنیاں مارتے تھے، حد سے بوڑھا کہے گا، اے میرے رب ! اسلام آیا اور میں کچھ سمجھتا نہ تھا اور جو فترت میں فوت ہوا وہ کہے گا، اے میرے رب ! میرے پاس تیرا کوئی پیغام لانے والا نہیں آیا۔ تو اللہ تعالیٰ ان سے ان کے پختہ عہد لے گا کہ وہ جو کہے گا اس کی اطاعت کریں گے ؟ تو ان کی طرف پیغام بھیجا جائے گا کہ آگ میں داخل ہوجاؤ، تو جو داخل ہوجائے گا وہ اس پر ٹھنڈک اور سلامتی بن جائے گی اور جو داخل نہیں ہوگا اسے گھسیٹ کر اس میں ڈال دیا جائے گا۔“ [ مسند أحمد : 4؍24، ح : 16307۔ ابن حبان : 7357 ] صحیح الجامع (881) میں شیخ البانی ؓ نے اسے صحیح فرمایا ہے، ابن کثیر نے فرمایا کہ اسے اسحاق بن راہویہ نے معاویہ بن ہشام سے ایسے ہی روایت کیا اور بیہقی نے اسے کتاب الاعتقاد میں ”حنبل عن علی بن عبد اللہ“ کی سند سے روایت کیا اور فرمایا یہ اسناد صحیح ہے۔ محترم زبیر علی زئی صاحب نے اردو تفسیر ابن کثیر کی تخریج میں اس کی ایک ہم معنی حدیث کو جو اہل جاہلیت کے متعلق ہے، حاکم (4؍449، 450) کے حوالے سے حسن لکھا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ اگر پیغام پہنچ جاتا تو کوئی شخص کیا کرتا، مگر ان چاروں کا عذر بھی باقی نہیں رہنے دیا جائے گا، بلکہ قیامت کے دن ان کے امتحان کے بعد اس کے نتیجے کے مطابق ان سے سلوک ہوگا، البتہ بچوں کے امتحان کی کوئی روایت صحیح نہیں۔ [ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ وَعِلْمُہُ أَتَمُّ ]
Top