Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 100
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ : اگر اَنْتُمْ : تم تَمْلِكُوْنَ : مالک ہوتے خَزَآئِنَ : خزانے رَحْمَةِ : رحمت رَبِّيْٓ : میرا رب اِذًا : جب لَّاَمْسَكْتُمْ : تم ضرور بند رکھتے خَشْيَةَ : ڈر سے الْاِنْفَاقِ : خرچ ہوجانا وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان قَتُوْرًا : تنگ دل
کہہ دے اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اس وقت تم خرچ ہوجانے کے ڈر سے ضرور روک لیتے اور انسان ہمیشہ سے بہت بخیل ہے۔
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ۔۔ : یعنی اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے، جن کے ختم ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں، تب بھی تم کسی کو پھوٹی کوڑی نہ دیتے۔ اس شدید بخل کا نتیجہ ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا بھی کسی کو نعمت عطا کرنا برداشت نہیں، نہ تمہیں یہ برداشت ہے کہ اللہ نے محمد ﷺ کو نبوت سے سرفراز فرمایا، اس لیے کہ تم محمد ﷺ کی نبوت و رسالت پر حسد و بخل کرتے ہو۔ یہ دونوں صفات بیحد قبیح ہیں۔ اس کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے سورة نساء (53 تا 55) روح المعانی میں ہے کہ ماقبل سے ربط میں مختلف اقوال ہیں مگر ان میں تکلف ہے۔ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا :”قَتَرَ یَقْتُرُ قَتْرًا وَ قُتُوْرًا“ (ن، ض) خرچ میں تنگی کرنا، شدید بخل، حتیٰ کہ اپنی ذات پر خرچ کرنے میں بھی بخل کرے۔ اس میں انسان کی طبعی اور جبلی خصلت بیان فرمائی ہے، جو ہمیشہ سے اس میں پائی جاتی ہے اور جس سے چھٹکارا انھی اعمال کی بدولت ہوسکتا ہے جو ”مرد ہلوع“ (تھڑدلا مرد) کے علاج کے لیے سورة معارج کی آیات (19 تا 35) میں بیان ہوئے ہیں۔
Top