Al-Quran-al-Kareem - Al-Hijr : 85
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ
وَمَا : اور نہیں خَلَقْنَا : پیدا کیا ہم نے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَآ : ان کے درمیان اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک السَّاعَةَ : قیامت لَاٰتِيَةٌ : ضرور آنیوالی فَاصْفَحِ : پس درگزر کرو الصَّفْحَ : درگزر کرنا الْجَمِيْلَ : اچھا
اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں کو پیدا نہیں کیا مگر حق کے ساتھ اور یقینا قیامت ضرور آنے والی ہے۔ پس درگزر کر، خوبصورت طریقے سے درگزر کرنا۔
وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۔۔ : ”بِالْحَقِّ“ کا معنی صحیح، با مقصد کام جو ہو کر رہنے والا ہو، جو بےکار، بےمقصد نہ ہو اور جسے کوئی روک نہ سکے۔ اس کے بالمقابل باطل ہے، فرمایا : (بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ) [ الأنبیاء : 18] ”بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں۔“ چار انبیاء کے واقعات کے بعد اب اللہ تعالیٰ کی عظیم مخلوق آسمان و زمین اور ان کے درمیان بیشمار مخلوقات کی طرف توجہ دلائی، جن میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور عظمت و قدرت پر دلالت کرتی ہے۔ فرمایا کہ یہ سب ہم نے بےمقصد پیدا نہیں کیا، بلکہ یہ سب کچھ تمہاری ضروریات کے لیے ہے اور ان میں سے ہر چیز کے لیے اللہ کا حکم ماننا ہر حال میں لازم ہے، کسی کو اختیار ہی نہیں کہ وہ سرتابی کرسکے۔ صرف انسانوں اور جنوں کو آزمائش کے لیے کچھ اختیار دیا ہے، اگر اس کا صحیح استعمال کریں گے تو دنیا و آخرت میں اللہ کے انعامات کے مستحق ہوں گے، جیسے ابراہیم ؑ کا واقعہ ذکر ہوا ہے، غلط استعمال کریں گے تو یا تو دنیا ہی میں اللہ کی گرفت میں آجائیں گے، جیسے لوط، شعیب اور صالح کی قومیں اللہ کے عذاب کی گرفت میں آئیں۔ اس کے بعد یقیناً قیامت آنے والی ہے، اس میں نیکوں کو ان کی نیکی کا پورا بدلہ دے گا، اگر دنیا میں بدلہ نہیں ملا تو وہاں کسر نکال دی جائے گی، اسی طرح بروں کو ان کی بدی کا پورا بدلہ ملے گا اور اگر دنیا میں انھیں مہلت ملی رہی تو وہاں کسر پوری کردی جائے گی۔ اس لیے آپ اور آپ کے ساتھی ان کفار کی زیادتی پر صبر کریں اور ان کی زبان درازی سے درگزر فرمائیں (دیکھیے آل عمران : 186) اور درگزر بھی خوبصورت طریقے سے، تاکہ قطع تعلق سے دعوت کا راستہ بند نہ ہوجائے۔ یہ سارا بیان نبی ﷺ کی تسلی کے لیے ہے۔
Top