Al-Quran-al-Kareem - Al-Hijr : 67
وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ یَسْتَبْشِرُوْنَ
وَجَآءَ : اور آئے اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ : شہر والے يَسْتَبْشِرُوْنَ : خوشیاں مناتے
اور اس شہر کے رہنے والے اس حال میں آئے کہ بہت خوش ہو رہے تھے۔
وَجَاۗءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ : ”الْمَدِيْنَةِ“ کا ترجمہ ”اس شہر“ الف لام برائے عہد کی و جہ سے کیا ہے۔ مفسرین نے اس کا نام ”سدوم“ بتایا ہے۔ قوم لوط کا عمل کرنے والوں کو بہت سی زبانوں میں ”سدومی“ کہا جاتا ہے، اس لیے عربی یا اردو میں اس کے لیے ”لوطی“ کا جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ مناسب نہیں۔ اس میں لوط ؑ کی ایک طرح سے توہین ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ بروں کے ساتھ رہنے میں بھی بدنامی ہے، خواہ کتنا نیک ہو، اب لوط ؑ کے اس بدبخت قوم کے پیغمبر ہونے کے باعث کتنے برے فعل کی نسبت ان کے مبارک نام کی طرف کی جاتی ہے۔ يَسْـتَبْشِرُوْنَ : ”بَشَرَ“ (ض، س) ، ”أَبْشَرَ“ اور ”اِسْتَبْشَرَ“ تینوں کا معنی خوش ہونا ہے، صرف حروف کے اضافے کی وجہ سے معنی میں اضافہ ہوتا جائے گا، اس لیے معنی کیا گیا ہے ”بہت خوش ہو رہے تھے“ یعنی لوط ؑ کے گھر نہایت خوبصورت لڑکوں کے آنے کی خبر سن کر نہایت خوش خوش بےاختیار دوڑتے ہوئے آئے۔ (دیکھیے ہود : 78) اس سے ظاہر ہے کہ وہ لوگ شرم و حیا سے خالی ہو کر کتنی پستی میں گر چکے تھے۔ واضح رہے کہ ”وَجَاۗءَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ“ میں ”واؤ“ ترتیب کے لیے نہیں، بلکہ صرف واقعہ کے مختلف حصوں کو ملانے کے لیے ہے، کیونکہ اگر پہلے وحی آچکی ہوتی اور لوط ؑ مہمانوں کو جان چکے ہوتے کہ یہ فرشتے ہیں تو انھیں پریشان ہونے کی، قوم کی منتیں کرنے کی اور اپنی یعنی قوم کی بیٹیاں پیش کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ انبیاء ؑ غیب دان نہیں ہوتے، انھیں صرف وہی معلوم ہوتا ہے جو انھیں وحی کے ذریعے سے بتادیا جائے۔ سورة ہود (77 تا 81) میں لوط ؑ کی پریشانی کا نقشہ اور فرشتوں کا انھیں تسلی دینا ملاحظہ فرمائیں۔
Top