Al-Quran-al-Kareem - Al-Hijr : 21
وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُهٗ١٘ وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز اِلَّا : مگر عِنْدَنَا : ہمارے پاس خَزَآئِنُهٗ : اس کے خزانے وَمَا : اور نہیں نُنَزِّلُهٗٓ : ہم اس کو اتارتے اِلَّا : مگر بِقَدَرٍ : اندازہ سے مَّعْلُوْمٍ : معلوم۔ مناسب
اور کوئی بھی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے کئی خزانے ہیں اور ہم اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے سے۔
وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا۔۔ : یعنی کوئی بھی چیز، قیمتی سے قیمتی ہو یا معمولی سے معمولی، ہمارے پاس اس کے کئی خزانے ہیں، مگر ہم اس کو معلوم اندازے کے مطابق ہی ظاہر کرتے ہیں، مثلاً جلانے اور روشنی کے لیے لکڑی استعمال ہوتی تھی، جب آبادی زیادہ ہوئی تو کوئلہ نکل آیا، مزید بڑھی تو پٹرولیم عطا ہوا، اس سے بھی بڑھی تو گیس نکل آئی، بجلی کے او ون ایجاد ہوگئے۔ توانائی اور سواری کے لیے جانور استعمال ہوتے تھے، پھر پہیہ ایجاد ہوا، پھر کوئلہ استعمال ہونے لگا، پھر پٹرولیم، گیس، بجلی اور ایٹم، الغرض ! ایجادات بھی ضرورت کے مطابق اپنے اپنے وقت پر ہوئیں۔ اس سے ان ملحد لوگوں، خصوصاً حکمرانوں کی بات کا غلط ہونا صاف واضح ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ آبادی زیادہ بڑھ رہی ہے، جب کہ ہمارے پاس وسائل کم ہیں، ہم سب کی خوراک کا بندوبست نہیں کرسکتے، اس لیے آبادی کم کرو، ضبط ولادت کرو، ایک یا دو بچے پیدا ہونے دو۔ یہ لوگ درحقیقت اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، جس نے فرمایا کہ ہمارے پاس ہر چیز کے بیشمار خزانے ہیں، مگر ہم مقرر اندازے کے ساتھ ہی اسے نازل کرتے ہیں۔ ان حکمرانوں نے کسی کو خوراک کیا دینی ہے، یہ تو خود عوام کی کمائی پر پلتے ہیں۔ اللہ کا کرم دیکھو، جو زمین پہلے دس من غلہ پیدا کرتی تھی اب سو من نکالتی ہے، بجلی اور دوسری ایجادات سے جو آسائشیں آج عام آدمی کو میسر ہیں وہ چند سو سال پہلے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی میسر نہ تھیں، بلکہ ان کے خیال میں بھی نہ تھیں، الا یہ کہ وہ سلیمان ؑ جیسا ہو، پیدل سفر اور اونٹوں، گھوڑوں کی جگہ گاڑیاں اور جہاز اور لق و دق صحراؤں کی جگہ آبادیاں اور نہایت صاف اور کشادہ سڑکیں اور ریلویز۔ اُون اور کپاس کی جگہ پٹرولیم کے کپڑے۔ الغرض ! کس کس نئی نعمت اور خزانے کا ذکر کیا جائے۔ رہا آبادی اور وسائل کا تناسب، تو وہ اللہ تعالیٰ سے بہتر کون جانتا ہے، اگر آبادی کم کرنے کی ضرورت ہو تو وہ اپنی غیبی تدبیر سے خود ہی کم کرلیتا ہے، کبھی طوفانوں سے، کبھی جنگوں سے، کبھی زلزلوں سے، کبھی وباؤں کے ذریعے سے۔ الغرض ہر جان دار کا رزق اللہ کے ذمے ہے اور ہر شخص کو اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک منہ کھانے کے لیے اور دو ہاتھ کمانے کے لیے دے کر بھیجتا ہے اور ایک ایک شخص کئی کئی افراد کی ضروریات مہیا کرتا ہے۔ دراصل یہ حکمران اس بہانے سے بدکاری اور بےحیائی پھیلانا چاہتے ہیں اور بےحیائی پھیلانے کے خواہش مند لوگوں کی سزا اللہ تعالیٰ نے سورة نور (19) میں بیان کی ہوئی ہے۔ ہمیں اللہ کے رسول ﷺ کا یہی حکم ہے کہ آبادی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرو، دنیا میں غلبے کا یہ ایک مضبوط ذریعہ بھی ہے اور قیامت کے دن ہمارے نبی ﷺ کے لیے دوسرے انبیاء سے اپنی امت کے زیادہ ہونے کی خوشی اور فخر کا باعث بھی، جیسا کہ معقل بن یسار ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے : (تَزَوَّجُوا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ فَإِنِّيْ مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْأُمَمَ) ”ایسی عورت سے نکاح کرو جو (خاوند سے) بہت محبت کرنے والی ہو اور بہت بچے جننے والی ہو، کیونکہ میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پر فخر کرنے والا ہوں گا۔“ [ أبوداوٗد، النکاح، باب النھي عن تزویج من لم یلد من النسآء : 2050۔ نسائی : 3229، و صححہ الألباني ]
Top