Al-Quran-al-Kareem - Al-Hijr : 17
وَ حَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍۙ
وَحَفِظْنٰهَا : اور ہم نے حفاظت کی اس کی مِنْ : سے كُلِّ : ہر شَيْطٰنٍ : شیطان رَّجِيْمٍ : مردود
اور ہم نے اسے ہر مردود شیطان سے محفوظ کردیا ہے۔
وَحَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ : یعنی آسمان کو ہم نے ہر مردود شیطان سے محفوظ رکھنے کا زبردست انتظام کر رکھا ہے۔ اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِيْنٌ۔۔ : سرقہ چوری کو کہتے ہیں، باب افتعال سے معنی میں اضافہ ہوگیا، یعنی مگر جو نہایت کوشش سے، یا نہایت خفیہ رہ کر چوری کرے۔ ”السَّمْعَ“ مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، یعنی سنی ہوئی چیز چرا لے۔ ”شِهَابٌ“ ہر روشنی کرنے والی چیز جو آگ سے پیدا ہو، عموماً ستارہ جو شعلے کی طرح پیچھا کرتا نظر آتا ہے۔ ”شِهَابٌ مُّبِيْنٌ“ روشن شعلہ۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : (إِذَا قَضَی اللّٰہُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلَاءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِھَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلٰی صَفْوَانٍ ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِھِمْ قَالُوْا مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟ قَالُوْا لِلَّذِيْ قَالَ الْحَقَّ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْکَبِیْرُ ، فَیَسْمَعُھَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ ھٰکَذَا، وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ وَوَصَفَ سُفْیَانُ بِیَدِہِ وَفَرَّجَ بَیْنَ أَصَابِعِ یَدِہِ الْیُمْنَی، نَصَبَھا بَعْضَھَا فَوْقَ بَعْضٍ فَرُبَّمَا أَدْرَکَ الشِّھَابُ الْمُسْتَمِعَ قَبْلَ أَنْ یَرْمِیَ بِھَا إِلٰی صَاحِبِہِ فَیُحْرِقَہٗ ، وَرُبَّمَا لَمْ یُدْرِکْہُ حَتّٰی یَرْمِيَ بِھَا إِلَی الَّذِيْ یَلِیْہِ ، إِلَی الَّذِيْ ھُوَ أَسْفَلُ مِنْہُ حَتّٰی یُلْقُوْھَا إِلَی الْأَرْضِ ، فَتُلْقَی عَلٰی فَمِ السَّاحِرِ فَیَکْذِبُ مَعَھَا ماءَۃَ کَذْبَۃٍ ، فَیُصَدَّقُ کَذَا وَ کَذَا ؟ فَوَجَدْنَاہُ حَقًّا لِلْکَلِمَۃِ الَّتِيْ سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ) [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : (إلا من استرق السمع۔۔) : 4701 ] ”جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی حکم صادر فرماتا ہے تو اس کا کلام سن کر فرشتے اظہار اطاعت و عجز کے لیے اپنے بازو (پر) پھڑ پھڑانے لگتے ہیں، (اس کلام کی آواز ایسی ہوتی ہے) جیسے کسی چٹان پر زنجیر کی آواز۔ پھر جب ان کے دلوں کا خوف جاتا رہتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا ؟ وہ کہتے ہیں کہ اس نے جو فرمایا حق فرمایا اور وہ بلند اور بڑا ہے۔ (اس وقت) فرشتوں سے سنائی دینے والی بات کو چوری سننے والے شیطان سننے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ چوری چھپے سننے والے اس طرح ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں“ اور راوی حدیث سفیان نے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کھول کر ایک دوسرے کے اوپر کر کے دکھائیں ”پھر بعض اوقات وہ شعلہ سننے والے کو اس سے پہلے جا پہنچتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کو جلدی سے بتائے اور اسے جلا دیتا ہے اور بعض اوقات اس وقت پہنچتا ہے جب وہ اپنے ساتھ والے کو جلدی سے بتاچکا ہوتا ہے، جو اس سے نیچے ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ اسے زمین تک پہنچا دیتے ہیں، تو وہ بات کاہن (نجومی) یا جادوگر کو پہنچا دی جاتی ہے، وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا لیتا ہے تو اس کی بات کو سچا سمجھا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں، کیا اس نے ہمیں فلاں فلاں دن ایسے ایسے نہیں بتایا تھا اور ہم نے دیکھا کہ وہ بالکل درست تھا، اس بات کے متعلق جو آسمان سے سنی گئی تھی۔“ مزید دیکھیے سورة صافات (5، 6) اور سورة طارق (1 تا 4)۔ یاد رہے کہ شیطان صرف وہ بات چرا سکتے ہیں جس کا تعلق آئندہ ہونے والے ان کاموں سے ہوتا ہے، جن کے متعلق فرشتے آسمان کے نیچے آپس میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ فرشتے بادل میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ [ بخاری : 4701 ] مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کی طرف جو وحی ہوتی ہے، اس کی حفاظت کا اتنا زبردست انتظام ہوتا ہے کہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شیطان اسے سن سکے یا چرا سکے، دیکھیے سورة جن کی ابتدائی اور آخری آیات کی تفسیر۔
Top