Ahsan-ut-Tafaseer - Nooh : 5
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّ نَهَارًاۙ
قَالَ رَبِّ : اس نے کہا اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نے دَعَوْتُ : میں نے پکارا قَوْمِيْ : اپنی قوم کو لَيْلًا وَّنَهَارًا : رات کو اور دن کو
جب لوگوں نے نہ مانا تو نوح نے خدا سے عرض کیا کہ پروردگار میں اپنی قوم کو رات دن بلاتا رہا
5۔ 20۔ اوپر کی آیتوں میں حضرت نوح علیہ اسلام کو جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم تھا اس کے موافق انہوں نے سالہا سال تک اپنی قوم کو بت پرستی کے وبال سے ڈرایا اور جب ان کی سرکش قوم راہ راست پر نہ آئی تو انہوں نے اپنی قوم کی یہ شکایت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کی جس کا حاصل یہ ہے کہ یا اللہ میں ان لوگوں کو ہر وقت تنہائی میں محفل میں سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا مگر ان لوگوں نے میری ایک نہ سنی بلکہ یہ لوگ نصیحت کی بات سے ایسے گھبراتے ہیں کہ جب ان سے کوئی بات نصیحت کی کہی جاتی ہے تو یہ لوگ کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں منہ سر لپیٹ کر کانوں کو کپڑے کے اندر چھپا لیتے ہیں تاکہ نصیحت کی بات سے ان کے کان آشنا نہ ہوں ان کی بد عادت سے قحط کی آفت جو ان پر پڑی ہوئی ہے میں نے ان کو یہ بھی سمجھایا کہ اگر تم اللہ کی جناب میں اپنی بد اعمالی سے توبہ استغفار کرو گے تو اللہ تعالیٰ خوب موسلادھار منیہ بر سا دے گا جس سے تمہاری کھیتی تمہارے باغ سرسبز ہوجائیں گے۔ آدمی اور جانوروں کے لئے نہروں میں پانی آجائے گا ‘ تم آباد ہوجاؤگے ‘ تمہارے مال و اولاد میں ترقی ہوگی۔ اولاد کی ترقی کا ذکر اس لئے کیا کہ سزا کے طور پر جس طرح ان لوگوں میں قحط پڑا تھا اسی طرح ان کے گھر اولاد کا پیدا ہونا بھی بند ہوگیا تھا میں نے ان لوگوں کو یہ بات بھی سمجھائی کہ اللہ کی اس قدرت کو ذرا خیال کرو کہ اس نے تم میں سے کسی کو گورا کسی کو کالا کسی کو مرد کسی کو عورت جس طرح سے چاہا پیدا کیا۔ اور پھر اب پیدا ہونے کے بعد کوئی بچہ ہے کوئی جوان کوئی بوڑھا۔ کوئی تندرست کوئی بیمار ‘ پھر کوئی اچھا ہوجاتا ہے کوئی مرجاتا ہے۔ تمہاری طرح طرح کی ضرورتوں کے لئے تم نے کیا یہ نہیں دیکھا کہ اس نے سات آسمان ‘ چاند ‘ سورج کیا کیا پیدا کیا زمین کو بچھونے کی طرح ایسا نرم کردیا کہ اس میں کھیتی کرو باغ لگاؤ ‘ اس کو کھود کر اس کی اینٹ مٹی سے مکان بناؤ پہاڑوں کی گھاٹیاں رکھیں تاکہ ایک شہر سے دوسرے شہر کو تجارت کے لئے جا سکو تم جو کھیتی کرتے ہو تو اناج کے ہاتھ آنے کی نیت سے باغ لگاتے ہو میوہ کھانے کے ارادہ سے مکان بناتے ہو تو اس میں رہنے کے قصد سے پھر کیا تم کو اتنی سمجھ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ سب انتظام بغیر کسی انجام کے کئے ہیں نہیں نہیں ‘ اس سب انتظام کا انجام یہی ہے جو میں تم سے کہتا ہوں کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پھر تم کو زندہ کرے گا اور عمر بھر جو تم نے کیا ہے اس سب کی جزا و سزا دے گا۔ ان سب باتوں کو بھلا کر تم نے جو خدا کی عظمت بالکل دل سے نکال دی اور بتوں کو خدا کا ہمسر ٹھہرا لیا اور ان کی پوجا کرنے لگے ان بتوں کو خدا کی خدائی میں کیا اختیار ہے جو ان کی پوجا کرنے لگے۔ جو ان کی پوجا سے تم کچھ فیض کو پہنچو گے یہ مانا کہ جن لوگوں کی یہ مورتیں ہیں وہ جیتے جی خدا کے نیک بندے تھے لیکن جو جیتے جی خدا کے نیک بندہ ہو مرنے پر اس کو خدائی اختیار نہیں مل جاتے کہ رفع حاجات کے لئے اس کی پوجا اللہ تعالیٰ کے نزدیک جائز ٹھہرے۔ غرض باوجود ان سب فہمایشوں کے یہ لوگ کسی طرح راہ راست پر انہیں آتے بلکہ ان کی سرکشی دن بدن بڑھتی جاتی ہے۔
Top