بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Nooh : 1
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّآ : بیشک ہم نے اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے نُوْحًا : نوح کو اِلٰى قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم کی طرف اَنْ اَنْذِرْ : کہ ڈراؤ قَوْمَكَ : اپنی قوم کو مِنْ : سے قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ يَّاْتِيَهُمْ : کہ آئے ان کے پاس عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
ہم نے نوح کو ان کی قوم کر طرف بھیجا کہ پیشتر اسکے کہ ان پر درد دینے والا عذاب واقع ہو اپنی قوم کو ہدایت کردو
1۔ 4۔ یہ اوپر گزر چکا ہے کہ چالیس برس کی عمر میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو نبوت ہوئی اور طوفان سے پہلے ساڑھے نو سو برس تک وہ اپنی قوم کو نصیحت کرتے رہے اور ساٹھ برس طوفان کے بعد زندہ رہے اس حساب سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر ایک ہزار پچاس برس کے قریب ہوئی۔ یہ بھی گزر چکا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت نوح کی قوم کے ابتدائی زمانہ تک لوگ دنیا میں بت پرستی نہیں کرتے تھے۔ شیطان کے بہکانے سے پہلے پہل اس قوم نے دنیا میں بت پرستی جس طرح شروع کی اس کا ذکر آگے آتا ہے اس شرک کے مٹانے کے لئے حضرت نوح (علیہ السلام) کی اطاعت اور فرمانبرداری فرض تھی۔ اسی واسطے حضرت نوح (علیہ السلام) کی نافرمانی کا یہ اثر ہوا کہ فرمانبردار چند آدمیوں کے سوا تمام دنیا کے لوگ طوفان سے ہلاک ہوگئے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ نصیحت جو اپنی قوم کو فرمائی کہ اللہ کی عبادت کرو اور میری فرمانبرداری کرو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر آنحضرت ﷺ تک سب انبیاء نے یہی نصیحت فرمائی ہے اس لئے کہ سوائے اللہ کی عبادت کے تو کسی کی عبادت کسی شریعت میں جائز نہیں ہاں اللہ کی عبادت کا طریقہ بغیر اللہ کے رولوں کی فرمانبرداری کے معلوم نہیں ہوسکتا۔ اس واسطے اللہ کے رسولوں کی اور ان حاکموں اور دین کے بزرگوں کی جو اللہ کے رسول کے نائب ہیں امت کے عام لوگوں کو فرمانبرداری ضرور ہے لیکن اپنے نائبوں کی فرمانبردار میں خود اللہ کے رسول ﷺ نے یہ شرط لگا دی ہے کہ یہ فرمانبرداری وہیں تک ہے جہاں تک شریعت کے کسی حکم کی مخالفت نہ پیدا ہوجائے۔ چناچہ صحیحین 1 ؎ میں حضرت علی ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر کسی کے قول و فعل کی فرمانبرداری شریعت کی حد تک ہے۔ دوسری حدیث صحیحین 2 ؎ میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی روایت سے ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حد شریعت سے باہر کسی کی فرمانبرداری جائز نہیں ہے حاصل کلام یہ ہے کہ نبوت کا زمانہ تو اب دور ہوگیا ہے اس زمانہ میں صاحب شریعت کے حکم کے معلوم کرنے کے لئے صاحب شریعت کے نائبوں کی فرمانبرداری کا موقع پیش آئے تو خود صاحب شریعت کی اس نصیحت اور وصیت کی پابندی ہر مسلمان کر ضرور ہے تاکہ کسی پیرو استاد و حاکم کی فرمانبرداری میں شریعت کی فرمانبرداری ہاتھ سے نہ جاتی رہے۔ ویو خرکم الی اجل مسمی کا یہ مطلب ہے کہ زندگی تک عبادت کرو تاکہ عبادت کے چھوڑ دینے کے وبال میں کوئی آفت نہ آجائے اگر موت یا موت سے پہلے کوئی اور آفت خدا کی طرف سے آجائے گی تو پھر مہلت کا موقع باقی نہ رہے گا جو باتیں میں کہتا ہوں اگر ان کو تم غور کرو گے توجلدی راہ راست پر آجاؤگے۔ 1 ؎ صحیح بخاری باب السمع والطاعۃ للامام ص 1058 ج 2 و صحیح مسلم باب وجوب طاعۃ الامراء الخ ص 124 ج 2۔ 2 ؎ صحیح بخاری باب السمع والطاعۃ للامام ص 1057 ج 2 و مسلم باب وجوب طاعۃ الامراء الخ ص 124 ج 2۔
Top