Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 98
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌ١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَهُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : وہ۔ جو۔ جس اَنْشَاَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنْ : سے نَّفْسٍ : وجود۔ شخص وَّاحِدَةٍ : ایک فَمُسْتَقَرٌّ : پھر ایک ٹھکانہ وَّمُسْتَوْدَعٌ : اور سپرد کیے جانے کی جگہ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ : بیشک ہم نے کھول کر بیان کردیں آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّفْقَهُوْنَ : جو سمجھتے ہیں
اور وہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا۔ پھر (تمہارے لئے) ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپرد ہونے کی۔ سمجھنے والوں کے لئے ہم نے (اپنی) آیتیں کھول کھول کر بیان کردی ہیں۔
(98 ۔ 99) ۔ کھیتی باغ سورج چاند تارے اوپر انسان کی ان ضرورت کی چیزوں کے پیدا کرنے کا ذکر تھا اور آگے بھی اس قسم کے چیزوں کا ذکر آوے گا۔ ان چیزوں کے ذکر کے بیچ میں یہ انسان کے پیدا کرنے کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جو غافل لوگ اپنی ضرورت کی چیزوں کی حالت پر غور کر کے ان چیزوں کے پیدا کرنے والے کو نہ پہچان سکے وہ خود اپنی پیدائش کی حالت پر غور کر کے اپنے خالق کو پہچانیں اور شرک سے باز آویں نفس واحد سے مقصود حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں کیونکہ بنی آدم کی پیدائش کا سلسلہ انہی سے شروع ہو ہے حضرت حوا حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پسلی سے پیدا ہوئیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت مریم کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور حضرت مریم حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں ہیں غرض بنی آدم میں سے کوئی شخص حضرت آدم ( علیہ السلام) کے سلسلہ سے باہر نہیں ہے۔ ترمذی ابوداؤد اور صحیح بان حبان میں ابوموسیٰ ؓ اشعری سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کے پتلے کی مٹی تمام روئے زمین کی مٹی کو ملاکر لی ہے اس واسطے ان کی اولاد کے رنگ اور مزاج مختلف ہیں ابن حبان نے اس حدیث آیت کے ٹکڑے وھوالذی انشأ کم من نفس واحدۃ کی گویا تفسیر ہے جس سے بنی آدم کے رنگ و روپ اور مزاجوں کے مختلف ہونے کا سبب سمجھ میں آتا ہے ترمذی میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پشت سے ان روحوں کو نکالا جو قیامت تک پیدا ہونے والی ہیں اور وہ روحیں حضرت آدم ( علیہ السلام) کو دکھا کر یہ فرمایا کہ یہ تمہاری وہ اولاد ہے جو سلسلہ بہ سلسلہ قیامت تک پیدا ہوگی ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں چند صحابہ سے روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ ماں کے رحم میں بچہ کا پتلا چار مہینے کے عرصہ میں بن کر تیار ہوجاتا ہے تو پھر اس پتلے میں اللہ کے حکم سے روح پھونکی جاتی ہے یہ حدیثیں بھی آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روحیں جسموں سے پہلے پیدا کی جاکر حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پشت میں رکھی گئیں اور پھر وہ روحیں حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پشت سے نکالی جاکر حضرت آدم ( علیہ السلام) کو دکھلائی گئیں اور تفسیر سدی کی روایت کے موافق پھر وہ روحیں حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پشت میں سونپ دی گئیں اور یہی سونپنے کی حالت پشت بہ پشت اس پتلے میں پھونک دی جاتی ہے۔ فدافلح المؤمنون میں آویگا کہ نافرمان لوگ عذاب قبر سے تنگ آکر دنیا میں دو بارہ آنے اور نیک عمل کرنے کے خواہش کریں گے تو ان کی یہ خواہش بارگاہ الٰہی میں منظور نہ ہوگی بلکہ ان کو یہ جواب ملے گا کہ اب یہ خواہش بےفادہ اور ناممکن ہے معتبر سند سے مسندامام احمد میں حضرت عائشہ ؓ اور براء بن عازب ؓ سے جو روایتیں ہیں انکا حاصل یہ ہے کہ نافرمان لوگ جب مرتے ہیں تو فرشتے ان کا دوزخ کا ٹھکانا ان کو دکھا کر یہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن تم لوگوں کو اس ٹھکانے میں جانا پڑے گا اور پھر ایسے لوگوں پر طرح طرح کا عذاب قبر شروع ہوجاتا ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔ اس سے فرقہ آریہ کا آواگون کا مسئلہ غلط قرار پاتا ہے کیونکہ اس مسئلہ کا حاصل یہ ہے کہ بداعمال آدمیون کی روحوں کو دنیا میں حیوانوں کی صورت دی جاتی ہے تاکہ اس تبدیل صورت سے وہ اپنے اعمال کی سزا بھگتیں اور اوپر آیت اور حدیثوں کا جو مطلب بیان کیا گیا اس کے موافق روحوں کا دوبارہ دنیا میں آنا ممکن نہیں علاوہ اس کے اس آواگوں کے مسئلہ کو علماء اسلام نے عقلی طور پر یوں غلط ٹھہرایا ہے کہ بہ نسبت انسان کے حیوانات کی زندگی بڑی بےفکری سے بسر ہوتی ہے اس لیے گرفتار فکر جسم کی روح کو بےفکر جسم میں بدل دینا اور اس کو سزا قرار دینا عقل سلیم کے بخلاف ہے بلکہ آریہ لوگ اگر یوں کہتے کہ مثلا سانڈھ مر کر انسانی جیون میں پھر دوبارہ پیدا ہوتے ہیں تاکہ بےفکر زندگی کی سزا فکر مند زندگی میں بھگتی جاوے تو یہ صورت شاید کچھ سمجھ میں آجاتی لیکن پھر بھی آریہ لوگوں کا یہ جو را دعویٰ دلیل کا محتاج رہتا حاصل یہ ہے کہ اس آواگون کے مسئلہ کی بنیاد تو ایسی ضعیف ہے جس کا حال بیان کیا گیا باوجود اس کے فرقہ آریہ کا یہ اعتراض ہے کہ اسلام میں یہ مسئلہ نہیں ہے اس لئے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیُرِا لُمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْن کے کوئی معنی صحیح نہیں قرار پاسکتے کیونکہ بغیر آواگون کے مسئلہ کے صحیح ہونے کے اللہ کی مہربانی اور غصے کا کوئی موقعہ باقی نہیں رہتا۔ اہل اسلام نے اس اعتراض کا جو جواب دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ خود آواگون کے مسئلہ کی بنیاد صحیح نہیں ہے پہلے کسی مقبوط دلیل ہے اس مسئلہ کی صحیح بنیاد قائم کی جاوے پھر کچھ بات چیت کی جاوے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق مُسْتَقَرّ سے مقصود عورت کا رحم ہے جہاں نطفہ قرار پاکر مدت مقرہ کے بعد بچہ پیدا ہوتا ہے اور مُسْتَوْدَعَ سے مقصود مرو کی پشت ہے جہاں نطفہ فقط سپردگی کے طور پر رہتا ہے کچھ تبدل تغیر نطفہ میں وہاں نہیں ہوتا اب آخر آیت میں فرمایا کہ یہ اللہ کی قدرت کی نشانیاں ان لوگوں کو مفید ہیں جو ان قدرت کی نشانیوں سے صاحب قدرت سے پہچاننے میں سمجھ دوڑاتے ہیں جو لوگ نہ ہر فرقہ کی طرح ان قدرت کی نشانیوں کے دیکھنے کے بعد بھی صاحب قدرت کی ہستی کے منکر ہیں یا اس کی قدرت کے کار خانہ میں اوروں کو شریک کرتے ہیں ان کو ان نشانیوں سے کچھ فائدہ نہیں معتبر سند سے تفسیر ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن معسود ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حال یہ ہے کہ مینہ برسنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو آسمان پر سے دریاؤں میں سے پانی اٹھاتی ہے اور پھر وہ پانی بادلوں میں پہنچاتی ہے اسی پانی سے مینہ برستا ہے یہ عبد اللہ بن مسعود ؓ کو قول گویا آیت کے ٹکڑے وَھُوَالَّذِیْ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً کی تفسیر ہے اس سے حکماء کا یہ قول غلط قرار پاتا ہے کہ دھوپ کی گرمی سے زمین پر کے دریاؤں کی بھاپ اوپر جاتی ہے اور ہوا کی سردی سے کثیف ہو کر جس میں زیادہ کثافت ہوتی ہے وہ جم کر اس کا ابربن جاتا ہے اور جس میں کم کثافت ہوتی ہے وہ قطرہ قطرہ ہو کر زمین پر ٹپکتی ہے اسی کا نام مینہ ہے اب آگے فرمایا کہ اب مینہ کے پانی سے طرح طرح کا اناج اور میوہ انسان کی ضرورت کے لیے اور چارہ جانوروں کے لیے یہ سب کچھ پیدا ہوتا ہے۔ گیہوں اور جو کی بالیں مکئی اور جوار کے بھٹے بھی قدرت کا ایک نمونہ ہیں کہ ان میں اوپر تلے کس خوبصورتی اور حکمت سے دانے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اسی طرح کھجور کے گچھے اس کا گابھا انگور کے خوشے زیتون اناریہ سب اس کی قدرت کے نمونے ہیں کہ لکڑی سے یہ پھل کیونکر پیدا ہوتے اور پکتے ہیں لیکن یہ قدرت کی نشانیاں انہیں لوگوں کے لیے ہیں جن کو اللہ کی قدرت کے کارخانوں کا یقین ہے۔ طبعیات والوں کی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کچھ طبیعت کے خاصیت سے ہوجاتا ہے قدرت الٰہی کو اس میں کچھ دخل نہیں ان کو ان قدرت کی نشانیوں سے کچھ فائدہ نہیں مگر طبعیات والوں کی یہ غلطی ہے کہ جو وہ ایسی باتیں کرتے ہیں کیونکہ اللہ کے کارخانہ قدرت میں طبیعت کی خاصیت کے برخلاف بھی بہت سی چیزیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ طبیعتیں بھی کسی کی پیدا کی ہوئی ہیں جس کے حکم کے وہ تابع ہیں اور وہ جب اور جس موقعہ پر چاہتا ہے کسی طبیعت سے اس طبیعت کی خاصیت کے برخلاف کام لیتا ہے چناچہ زمین کی طبعی خاصیت یہ ہے کہ جو چیز اس میں دبائی جاوے وہ آخر کو خاک ہوجاتی ہے لیکن اناج کے بیچ اور میوے کی گٹھلی میں اس قادر مطلق نے طبعی خاصیت کے برخلاف زمین سے جو کام لیا وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اسی طرح سورج کی طبعی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو خشک کرتا ہے لیکن اس قادر مطلق نے مثلا گیہوں اور جو میں تو سورج کی طبعی خاصیت کے موافق سورج سے کام لیا اور انگور آم میں طبعی خاصیت کے برخلاف سورج سے کام لیا گیا کہ بجائے انگور اور آم کے سوکھا دینے کے سورج کی حرارت نے ان چیزوں کا اور الٹا تروتازہ کردیا کچے انگور اور آم کی کچھی کیری کی جو حالت تھی پکنے کے بعد جو انکی حالت ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے علاوہ اس کے طبعیت کوئی ذی شعور چیز نہیں ہے جو مثلا گیہوں کی بالوں میں اس طرح خوبصورتی ہے دانہ جڑے۔ پانی کی ایک طبعی خاصیت میں یہ شعور کہا ہے کہ کسی آم کے دانہ کو میٹھا کردے اور کسی کو کھٹا غرض طبعیات والے طرح طرح کی طبعی خاصتیں دریافت کر کے اللہ کی قدرت کا انکار نہیں کرسکتے بلکہ ان کو اس کی قدرت کا زیادہ یقین کرنا چاہئے کہ جس نے طرح طرح کی طبعی خاصتیں پیدا کیں اور جس طرح چاہا ان خاصیتوں سے کام لیا پابند طبعیات دہریہ لوگ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو آنکھ سے نہیں دیکھا اس لیے بغیر دیکھے ہم اس کی ہستی کا اقرار نہیں کرسکتے اس کا جواب علمائے پابند شریعت نے یہ دیا ہے کہ ان لوگوں نے روح اور عقل کو بھی آنکھ سے نہیں دیکھا فقط آثار روحانی اور عقلی سے یہ لوگ روح اور عقل کی ہستی کے قائل ہیں :۔
Top