Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 90
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو هَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ فَبِهُدٰىهُمُ : سو ان کی راہ پر اقْتَدِهْ : چلو قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَسْئَلُكُمْ : نہیں مانگتا میں تم سے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : کوئی اجرت اِنْ : نہیں هُوَ : یہ اِلَّا : مگر ذِكْرٰي : نصیحت لِلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان والے
یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدیات دی تھی تو تم انھی کی ہدایت کی پیروی کرو۔ کہہ دو کہ میں تم سے اس (قرآن) کا صلہ نہیں مانگتا۔ یہ تو جہان کے لوگوں کے لیے محض نصیحت ہے۔
اس آیت کے متعلق علماء اہل اصول کے دو مذہب ہیں ایک مذہب تو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو انبیائے ساقی کی شریعت کے موافق عمل کرنیکا حکم ہے۔ جب تک کہ اس شریعت سابقہ کی منسوخی کا حکم شریعت محمدی میں نہ آجاوے اس مذہب کو ابن حاجب نے اختیار کیا ہے دوسرا مذہب یہ ہے کہ شریعت محمدی میں جب تک پچھلی کسی شریعت کے موافق حکم نہ آوے تو آنحضرت کو پچھلی شریعت کے موافق عمل کرنا ضروری نہیں ہے اور اس پچھلے مذہب کو عملاء اصول نے زیادہ واضح ٹھہرایا ہے اور اسی مذہب کی تائید قرآن شریف سے نکلتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دین محمدی کی نسبت فرمایا ہے لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ یعنی ” دین محمدی کو اللہ تعالیٰ نے سب دینوں پر غالب کیا ہے “ پھر دین غالت کا نبی مغلوب دین کے مسئلہ پر اس وقت تک کیونکر عمل کرسکتا ہے جب تک وہ دین مغلوب کا مسئلہ دین غالب کا مسئلہ نہ ٹھہر جاوے صحیح بخاری ومسلم کی ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب نبی گویا ایک باپ کی اولاد علاتی بھائی ہیں 1 ؎ ہاں مائیں ان کی جدا وجدوا 1 ؎ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مصلحت وقت کے موافق حلال و حرام کے احکام ہر ایک شریعت کے جدا جدا ہیں لیکن اصل دین جو توحید ہے اس میں سب ایک ہیں۔ یہ حدیث گویا آیت کی تفسیر ہے کیونکہ آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب ٹھہرتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو توحید میں تو انبیائے سابق کی چال چلت چلنے کا حکم ہے رہے حلال و حرام کے احکام ان میں جہاں تک شریعت محمدی اور پچھلی شریعتوں میں مطابقت پائی جاوے گی وہاں تک تو پچھلی شریعتوں کہ احکام کو حال کی مصلحت کے موافق قرار دیا جا کر ان پر عمل کیا جانا عین شریعت محمدی کے کا عمل شمار کیا جاوے گا ورنہ اس حدیث کے موافق یہ کہا جاویگا کہ وقتیہ مصلحت کے لحاظ سے پچھلی شریعت کا حکم جدا ہے اور شریعت محمدی کا حکم جدا اس تفسیر کے بعد اہل اصول میں جو اختلاف تھا وہ بھی رفع ہوجاتا ہے اور آیت کی تفسیر بھی صحیح حدیث کے موافق ہوجاتی ہے مثال اس تفسیر کی یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ مثلا بچھڑا پوج کر مرتد ہوگئے تھے شریعت موسوی میں ان کی توبہ قتل قرار پائی اب شریعت محمدی میں مرتد شخص کی توبہ بغیر قتل کے مقبول ہے اس لیے ہر وقت کی مصلحت کے مواق یہ دونوں شریعتوں کے حکم جدا جدا ہیں ایک شریعت میں دوسری شریعت کے موافق عمل نہیں ہے۔ اب آگے فرمایا اے رسول اللہ کہ تم ان مکہ مشرکوں سے کہہ دو کہ تم لوگ قرآن کی نصیحت کے سننے سے جو بھاگتے ہو تو میں تم لوگوں سے کچھ اجرت اس نصیحت پر نہیں مانگتا جس کے بوجھ سے تم گھبراتے ہو بلکہ بغیر معاوضہ اور اجرت کے یہ قرآن تو جن وانس سب کے حق میں ایک عام نصیحت ہے جو کوئی اس کو سنے گا اس کے دل پر اس کا اثر ہوگا۔ اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے 6؁ ہجری سے پہلے تک اہل مکہ قرآن کی نصیحت کے سننے سے گھبراتے رہے تو ان کے دل میں قرآن مجید کی نصیحت کا اثر کچھ نہیں ہوا 6 ہجری میں صلح حدیبیہ ہو کر خالد ؓ بن ولید اور عمر وبن العاض ؓ اور مکہ کے نامور اور رودار لوگوں کی آمدو رفت مکہ سے مدینہ کی جب کھل گئی اور صلح کے سبب سے مشرکوں اور اہل اسلام کی بات چیت اچھی طرح ہونے لگی جس میں قرآن کی نصیحت سے بھی مشرکوں کے کان کچھ آشنا ہوگئے تو تھوڑے ہی عرصہ میں اہل مکہ کی ایک بڑی جماعت تابع اسلام ہوگئی۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بہ نسبت اور انبیاء کے مجھ کو قرآن ایک ایسا بڑا معجزہ دیا گیا ہے جس کے سبب سے قیامت کے دن میری امت کی تعداد اور انبیاء کی امتوں سے زیادہ ہوگی 1 ؎ قرآن کی نصیحت کے مفید ہونے اور قیامت تک اس نصیحت کے اثر کے باقی رہنے کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ اس حدیث میں نبی آخرالزمان ﷺ کی پیشین گوئی کا یہ ایک معجزہ بھی ہے جس کا یہ ظہور سب کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ اس ضعف اسلام کے زمانہ میں بھی فقط قرآن کی نصیحت کے اثر سے ہر سال اہل اسلام کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے :۔ 1 ؎ صحیح بخاری ج 1 ص 489۔ 49 کتاب الانبیاء
Top