Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 82
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا : نہ ملایا اِيْمَانَهُمْ : اپنا ایمان بِظُلْمٍ : ظلم سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمُ : ان کے لیے الْاَمْنُ : امن (دلجمعی) وَهُمْ : اور وہی مُّهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ
جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم سے مخلوط نہیں کیا ان کے لئے امن (اور جمعیت خاطر) ہے۔ اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔
اس آیت میں ظلم کی تفسیر خود آنحضرت نے فرمادی ہے کہ ظلم سے مطلب یہاں شرک ہے چناچہ صحیح بخاری ومسلم میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ نے ظلم کے معنے عام گناہ کے سمجھے اور صحابہ پر یہ آیت بہت شاق گذری اور انہوں آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ جب امن ان ایمانداروں کی قیامت کے روز ملے گا جنہوں نے اپنے ایمان میں گناہوں کی آمیزش نہ کی ہو تو ہم میں تو کوئی ایسا نہیں ہے جو گنہگار نہ ہو آپ نے فرمایا جو تم لوگ نے گمان کیا ہے آیت کا وہ مطلب نہیں ہے بلکہ آیت میں ظلم سے مطلب شرک ہے کیا تم نے لقمان کا یہ قول نہیں سنا کہ سب سے بڑا ظلم شرک ہے غرض خود صاحب وحی ﷺ کے فرمانے سے حاصل معنے آیت کے یہ ہوئے کہ سوائے شرک کے کسی طرح کے گناہ کر کے کوئی شخص اگر بلا توبہ مرجائے تو اس کو قیامت میں یہ امن ملے گا کہ اس کی مغفرت کی توقع ہے یہ تفسیر تو متفق علیہ حدیث کو رو سے ہے اور بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب صحابہ پر یہ آیت شاق گذری تو خود اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تفسیر فرمائی اور آیت ان الشرک لظلم عظیم (31۔ 13) نازل فرمائی 2 ؎ یہاں تک تو خدا تعالیٰ نے اور رسول خدا نے ایک تفسیر جو اس آیت کی فرمائی تھی اس کا ذکر ہوچکا لیکن قول نبوی کے موافق ایک دوسری تفسیر کا ذکر کرنا بھی برکت سے خالی نہیں اس لیے آنحضرت نے دوسری تفسیر جو اس آیت کی فرمائی ہے وہ بھی ذکر کی جاتی ہے معتبر سند سے تفسیر ابن ابی حاتم اور مسند امام احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی اونٹ پر چڑھ کر آرہا تھا اور ہم چند صحابہ آنحضرت کے ساتھ مدینہ کے باہر کہیں جا رہے تھے آپ نے فرمایا شاید یہ اونٹ سوار ہم لوگوں ہی کی تلاش میں آرہا ہے اتنے میں وہ اونٹ سوار پاس آیا اور اس نے کا کہ میں جنگل کے پتے کھاتا ہوا دور سے آیا ہوں اور اللہ کے رسول کو ڈھونڈھتا ہوں لوگوں نے آنحضرت کو بتلایا اور اس نے آنحضرت سے کہا حضرت مجھ کو اسلام سکھاؤ آپ نے اسلام ان کو سکھایا اتنے میں وہ سوار اونٹ سے الجھ کر گرا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی اور فورا وہ مرگیا آپ نے فرمایا جس وقت اس سوار کی جان نکلی میں نے دیکھا کہ فرشتے اس کے منہ میں جنت کا میوہ دے رہے تھے وہ سچے کہتا تھا کہ جنگل کے پتے کھا کر آرہا ہوں اور بھوکا ہوں یہ کہہ کر پھر آپ نے فرمایا ایسے لوگوں کی شان میں یہ آیت اتری 3 ؎ ہے پہلی تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ جس کا ایمان میں شرک کی آمیزش نہ ہو تو وہ گنہگار بھی بخشا جاوے گا۔ دوسری تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ جس کے ایمان میں شرک کی آمیزش نہ ہو اس کو نیک عمل کرنے کا موقع نہ ملا تو صرف ایمان بھی اس اس کی بخشش کا موجب ہوسکتا ہے ابوسعید خدری ؓ کی شفاعت کی بڑی حدیث صحیح بخاری 1 ؎ ومسلم کے حوالہ سے ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں یہ ہے کہ ملائکہ انبیاء اور نیک لوگوں کی شفاعت کے بعد خود اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ایسے لوگوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کریگا جن کے دل میں کسی قدر توحید تو تھی لیکن انہوں نے عمر بھر کوئی نیک کام نہیں کیا تھا۔ اس حدیث سے عبداللہ بن عباس ؓ کی اوپر کی حدیث کی پوری تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے جواب میں نای العریقین احق بالا من ان کنتم تعلمون مبہم طور پر کہا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو کھول کر فرما دیا کہ دنیا میں سیدھے راستہ پر ہونا اور عقبے میں امن امان سے رہنا انہی لوگوں کے حصہ میں ہے جو ایماندار اور شرک سے بچے ہوئے ہیں۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے جابر ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص سوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے کو معبود جاننے کی حالت میں بغیر توبہ کے مرگیا وہ ہمیشہ کے لیے دوزخی ہے اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کے اعمال نامہ میں شرک نہیں ہے اگر ایسا شخص شرک کے سوا اور گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے دوزخ میں گیا بھی تو آخر کو ایسا شخص جنت میں جاوے 2 ؎ گا۔ یہ حدیث اور ابوسعید خدری ؓ کی اوپر کی حدیث آیت کی گویا تفسیر ہیں جس سے اہل توحید کے آخری درجہ تک کے اس امن کا حاصل معلوم ہوا جو امن ان لوگوں کو عقبے میں ملے گا :۔ 1 ؎ صحیح بخاری ج 1 ص 18 باب فضل من علم وعلم 2 ؎ صحیح بخاری ج 2 ص 666 و 4 70 کتاب التفسیر و تفسیر ابن کثیرج 2 ص 152۔ 3 ؎ تفسیر ابن کثیرج 2 ص 153۔
Top