Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 75
وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُرِيْٓ : ہم دکھانے لگے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم مَلَكُوْتَ : بادشاہی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلِيَكُوْنَ : اور تاکہ ہوجائے وہ مِنَ : سے الْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والے
اور ہم اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے تاکہ وہ خوب یقین کرنے والوں میں ہوجائیں
(74 ۔ 79) ۔ مکہ کے مشرک لوگ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر کہتے تھے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قصہ ذکر فرما کر ان لوگوں کو یوں قائل کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) توبت پرستی سے جس قدر بیزار تھے اس کا حال ان لوگوں کو اس قصہ سے معلوم ہوگا پھر یہ لوگ بت پرستی میں گرفتار رہ کر اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر کیونکر بتلاسکتے ہیں۔ اس میں سلف کا اختلاف ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلے چمکدار تارے مشتری یا زہرہ کو اور پھر چاند سورج کو دیکھ کر ھذا ربی جو کہا یہ قول انکا اس بچے پنے کے زمانہ کا ہے جس وقت تک ان کو توحید اور احکام شرع معلوم نہ تھے یا بڑی عمر میں اپنے باپ اور قوم کے لوگوں کو قائل کرنے کے لیے انہوں نے یہ بات کی تھی۔ جو مفسر اس قول کو ابراہیم (علیہ السلام) کے بچہ اپنے کے زمانہ کا قول قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس وقت کا جو قصہ ہے اسکا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیدائش کے سال اس وقت کے نجومیوں نے نمرودبن کنعان ملک عراق کے باردشاہ سے یہ کہا تھا کہ اس سال ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے سبب سے سلطنت نمرودی کو بڑا صدمہ پہنچے گا۔ یہ خبر سن کر اگرچہ نمرود نے اس سال جو لڑکے پیدا ہوئے ان کے قتل کا بڑا انتظام کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے انتظام کے آگے نہ انتظام نمرودی چل سکتا ہے نہ انتظام فرعونی آخر حضرت ابراہیم پیدا ہوئے ہاں انتظام نمرودی کے خوف سے اتنا ہوا کہ حضرت ابراہیم ایک تہہ خانہ میں پیدا ہوئے اور چند سال کی عمر تک ان کو اسی تہہ خانہ میں رکھا گیا۔ اور جب حضرت ابراہیم کو اس تہہ خانہ سے باہر نکالا اور پہلے پہل انہوں نے تاروں اور چاند سورج کو دیکھا تو اسی وقت کی ان کی یہ باتیں ہیں جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے لیکن اکثر سلف کا قول یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عمر میں اپنے باپ اور تمام قوم کے الزام دینے کے لیے یہ باتیں منہ سے نکالی ہیں کیونکہ بچہ اپنے میں بھی سوا اللہ تعالیٰ کے ھذا اربی کا لفظ دوسرے کی شان میں نبی کی زبان سے ہرگز نہیں نکل سکتا کنعانی قوم ستارہ پرست لوگ تھے ستاروں کو پرستش کی غرض سے ان لوگوں نے ستاروں کی مورتیں زمین پر بھی بنا رکھی تھیں جن کی پوجا یہ لوگ کیا کرتے تھے اسی واسطے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کے روبروبت پرستی اور ستارہ پرست لوگ تھے ستاروں کی پرستش کی غرض سے ان لوگوں نے ستاروں کی مورتیں زمین پر بھی بنا رکھی تھیں جن کی پوجا یہ لوگ کیا کرتے تھے اسی واسطے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کے روبرو بت پرستی اور ستارہ پرستی دونوں باتوں کی مذمت بیان کی صحیح قول یہی ہے کہ آزر حضرت ابراہیم کے باپ کا نام ہے اور تاریخ ان ہی آزر کا لقب ہے۔ ملکوت کے معنے ملک کے ہیں ملک کے آخر میں (ت) مبالغہ کے لیے بڑھائی گئی ہے ملکوت السموات سے مقصد سورج چاند اور تارے ہیں اور ملکوت الارض سے مقصد پہاڑ پیڑ اور دریا حاصل مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کو یہ سمجھ دی کہ وہ ان چیزوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت کے یقین میں ترقی حاصل کریں۔ حنیف کے معنے ایک طرف کو مائل ہونا حاصل مطلب یہ ہے کہ قوم کی ستارہ پرستی اور بت پرستی کے شریک کو چھوڑ کر میں تو توحید اور اللہ کی عبادت کی طرف مائل ہوا کیوں کہ جس نے آسمان زمین سب کچھ پیدا کیا تعظیم کے قابل وہی ہے اس کی تعظیم میں کسی کو شریک ٹھہرانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوسعید خدری ؓ کی شفاعت کی بڑی حدیث کا ذکر ایک جگہ گذر چکا ہے جس میں یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی توحید ہوگی وہ آخر کو دوزخ سے نکل کر جنت میں جاو 1 ؎ یگا۔ معتبر سند سے ابن ماجہ اور صحیح بان خزیمہ میں ابوہریرہ ؓ سے حدیث قدسی کی روایت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شرک کا کوئی نیک عمل اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں 2 ؎ یہ حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید ذرہ برابر بھی قیامت کے دن فائدہ کی چیز ہے اور شریک ذرہ برابر بھی اس دن ضرر پہنچانے کی چیز ہے :۔ 1 ؎ صحیح مسلم ج 2 ص 371 باب صفتہ القیامۃ والجنۃ والنائ۔ 2 ؎ الترغیب والترہیب ج 1 ص 19 باب الریاء الخ ومشکوٰۃ باب الریاوالسمعۃ فصل اول
Top