Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 59
وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ١ؕ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَ لَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَعِنْدَهٗ : اور اس کے پاس مَفَاتِحُ : کنجیاں الْغَيْبِ : غیب لَا : نہیں يَعْلَمُهَآ : ان کو جانتا اِلَّا : سوا هُوَ : وہ وَيَعْلَمُ : اور جانتا ہے مَا : جو فِي الْبَرِّ : خشکی میں وَالْبَحْرِ : اور تری وَمَا : اور نہیں تَسْقُطُ : گرتا مِنْ : کوئی وَّرَقَةٍ : کوئی پتا اِلَّا : مگر يَعْلَمُهَا : وہ اس کو جانتا ہے وَلَا حَبَّةٍ : اور نہ کوئی دانہ فِيْ : میں ظُلُمٰتِ : اندھیرے الْاَرْضِ : زمین وَلَا رَطْبٍ : اور نہ کوئی تر وَّلَا : اور نہ يَابِسٍ : خشک اِلَّا : مگر فِيْ : میں كِتٰبٍ : کتاب مُّبِيْنٍ : روشن
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سواء کوئی نہیں جانتا اور اسے جنگلوں اور دریاوں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں چھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانا اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے
بخاری کی روایت میں خود آنحضرت نے ان غیب کی کنجیوں کی تفسیر ان پانچ چیزوں سے فرمائی ہے جن کا ذکر صراحت سے سورة لقمان میں آوے گا وہ پانچ چیزیں ایک قیامت کا وقت ہے کہ کب آوے گی دوسرے مینہ کا حال کہ کب برسے گا تیسرے یہ کہ حاملہ عورت کے پیٹ میں کیا ہے لڑکا ہے یالڑ کی چوتھے یہ کہ کل کیا ہوگا پانچویں یہ کہ کون شخص کس سرزمین میں مریگا 1 ؎ 1 ؎ صحیح بخاری ج 1 ص 12 کتاب الدیان و ج 2 ص 666 کتاب التفسیر۔ شارحین کتب حدیث نے اور مفسرین نے لکھا ہے کہ اور علم غیب کی باتیں اللہ تعالیٰ انبیاء کو بذر یعہ وحی کے اور اولیا۔ کو بذریعہ الہام یا خواب کے ظاہر فرما دیتا ہے چناچہ انبیاء نے عذاب قبر عذاب حشر کا احوال دوزخ و جنت کا حال جو علم غیب میں سے ہے صراحب سے بیان کیا ہے حضرت عیسیٰ لوگوں کی گھر کی رکھی ہوئی چیزیں بغیر دیکھے اور لوگوں کا کھایا پیا بتلا دیا کرتے تھے اور حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے ایک قیدی کا رہا جا ہونا اور دوسرے کا سولی پر چڑھایا جانا بتلا دیا تھا اور بعض اولیاء بھی بعضی آئندہ کی باتوں کو کرامت کے طور پر بیان کردیتے ہیں فرق اسی قدر ہے کہ نبی کو جو غیب کا حال معلوم ہوتا ہے وہ وحی سے معلوم ہوتا ہے جو یقینی علم ہے اور اولیاء کو جو کچھ غیب کا حال معلوم ہوتا ہے وہ الہام یا خواب کے ذریعہ سے معلوم ہوتا ہے جس میں مجتہد کے اجتہاد کی طرح غلطی کا احتمال ہے کس لیے کہ نبی کی وحی میں اس بات کی حفاظت کے لیے کہ اس میں شیطان کا کچھ تصرف نہ ہونے پاوے خدا کی طرف سے فرشتے ہمیشہ خبرداری کیا کرتے ہیں جس کا ذکر سورة جن میں آوے گا اور کبھی موقعہ پاکر نبی کی وحی میں اگر شیطان کچھ تصرف کرتا ہے تو خدا کی طرف سے فورا اس کی اصلاح ہوجاتی ہے چناچہ اس کا ذکر سورة حج اور سورة نجم میں آویگا ولی کے الہام اور خواب میں یہ حفاظت اور اصلاح نہیں ہے۔ غرض یہ پانچ باتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم خاص میں رکھی ہیں اسی واسطے یہ پانچ باتیں غیب کی کنجیاں کہلاتی ہیں چناچہ اسی بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل نے اجنبی شخص کی صورت میں آنحضرت کے پاس آن کر ایمان واسلام کی چند باتیں پوچھیں آپ نے سب کے جواب دیے جب حضرت جبرئیل قیامت کا حال پوچھا تو آپ نے فرمایا کر پوجنے والا اور بتلانے والا دونوں اس سے بیخبر ہیں 1 ؎ 1 ؎ صحیح بخاری ج 1 ص 12 کتاب الایمان حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کا ذکر اور دنیا کے ذرہ ذرہ کا حال لوح محفوظ میں لکھے ہونے کا ذکر فرما کر یہ آیت اس تنبیہ کے لیے نازل فرمائی ہے کہ وہ غیب دان بھی ہے اور اس کے دفتر میں ذرہ ذرہ کا حساب بھی ہے ایک دن اس حساب کی جانچ ہونے والی ہے ہر شخص کو چاہئے جو کچھ دنیا میں کرے ذرا حساب کا انجام یادرکھ کر کرلے حاصل مطلب یہ ہے کہ جنگل اور دریا میں جو کچھ ہوچکا اور جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم اور ارادہ کے موافق ہے اور بیتی یا جنگل میں چھوٹے بڑے جو پیڑ میں ان کے ایک ایک پتے اور گٹھلی یا دانہ کا حال اور دنیا کی ہر ایک خشک وترسب چیزوں کا حال یہ سب کچھ اس کے علم سے باہر نہیں ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے علم کے موافق لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ اس آیت سے ارسطو وغیرہ کا یہ قول غلط قرارپاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سوا اپنی ذات کے اور دوسری چیزوں کا علم نہیں ہے اسی طرح وہ قول بھی غلط قرار پاتا ہے جو ارسطو کے بعد شیخ ابوعلی بن سینا نے قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات اور کلیات کا علم ہے جزئیات کا علم نہیں ہے۔ یہ دونوں قول اس لیے غلط قرار پاتے ہیں کہ اس آیت کے موافق ایک ذرہ بھی اللہ کے علم سے باہر نہیں ہے۔ بعضے علماء کو یہ شبہ جو پیدا ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو ذرہ ذرہ معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں بھول چوک بھی ممکن نہیں ہے تو پھر معلوم نہیں لوح محفوظ میں سب چیزوں کا حال لکھنے میں کیا حکمت ہے اس کا جواب اور علماء نے یہ دیا ہے کہ لوح محفوظ میں سب چیزوں کا حال لکھنے میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں مثلا یہ ایک کتنی بڑی حکمت ہے کہ جو فرشتے لوگوں کا نامہ اعمال لکھنے پر تعینات ہیں جب یہ فرشتے اس نامہ اعمال کو آسمان پر لیجاتے ہیں اور اس کا مقابلہ لوح محفوظ کے نوشتہ سے کرتے ہیں اور دونوں تحریروں میں مطابقت پاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے علم غیب کی تصدیق انہیں زیادہ ہوجاتی علاوہ اس کے اس میں اور بھی حکمتیں ہیں جو بڑی کتابوں میں ہیں۔ کھلی کتاب جو لوح محفوظ کو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ علم الٰہی کے موافق اس میں ہر چیز کی کھلی کھلی تفصیل لکھی ہوئی ہے۔ عبداللہ بن عمر وبن العاض ؓ کی حدیث صحیح مسلم کے حوالہ سے ایک جگہ گذر چکی ہے 1 ؎ 1 ؎ ص 123 جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے اپنے علم ازلی کے موافق دنیا کا تمام حال اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے علم ازلی سے باہر نہیں ہے کیونکہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اللہ کے علم کا نتیجہ ہے :۔
Top