Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 4
وَ مَا تَاْتِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَ
وَ : اور مَا تَاْتِيْهِمْ : ان کے پاس نہیں آئی مِّنْ : سے۔ کوئی اٰيَةٍ : نشانی مِّنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں رَبِّهِمْ : ان کا رب اِلَّا : مگر كَانُوْا : وہ ہوتے ہیں عَنْهَا : اس سے مُعْرِضِيْنَ : منہ پھیرنے والے
اور خدا کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ان لوگوں کے پاس نہیں آتی مگر یہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
(4 ۔ْ 6) ۔ اوپر ذکر تھا کہ عقل مند وہی شخص ہے جو قیامت کے دن کے فیصلہ اخیر کے لئے کچھ اچھی روداد جمع کر لیوے اب ان آیتوں میں اہل مکہ کی نادانی اور کم عقلی کا ذکر ہے جس پر وہ لوگ اڑے ہوئے تھے۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ قیامت کے دن کے فیصلہ اخیر کے لئے اچھی روداد کا جمع کرنا تو درکنار اپنی ازلی کم بختی کے سبب سے یہ لوگ تو اسے پر اڑے ہوئے ہیں کہ اس فیصلہ اخیر کی یادہانی کے باب میں جو آیات قرانی نازل ہوتی ہیں ان ہی کو یہ لوگ جھٹلا کر ہنسی ٹھٹھے میں اڑاتے ہیں لیکن اس میں کسی کا کچھ نہیں بگڑتا وقت مقررہ پر یہ لوگ اپنے کئے کا برا نتیجہ دیکھ لیویں گے کہ شام اور یمن کے سفر میں جس طرح پچھلی قوموں کی اجڑی ہوئی بستیاں ان کو نظر آتی ہیں وہ حال ان کا ہوگا کہ یا تو دنیا میں کوئی عذاب ان پر آجائے گا اور اگر مصلحت الٰہی کے موافق دنیوی عذاب سے یہ لوگ بچ بھی گئے تو عقبیٰ کی خرابی سے نہیں بچ سکتے یہ ان کو معلوم ہے کہ پچھلی قومیں طاقت، ثروت، درازی عمر سب باتوں میں ان سے بڑھ کر تھیں۔ پھر ان باتوں میں سے ان کی کوئی بات جب عذاب الٰہی سے ان کو نہ بچا سکی تو ان کے پاس عذاب الٰہی سے بچنے کا ایسا کون سا سامان ہے جس کے بھروسہ پر یہ لوگ آیات قرآنی کے جھٹلانے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ قریش میں جو لوگ آیات قرآنی کے زیادہ منکر تھے بدر کی لڑائی میں ان پر دنیاوی آفات بھی آئی اور دنیا سے اٹھے ہی عذاب آخرت میں جا پھنسے۔ صحیح مسلم میں حضرت عمر ؓ کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بدر کی لڑائی کے شروع ہونے سے ایک رات پہلے آنحضرت ﷺ نے قریش میں کے ان سب سرکش لوگوں کے نام بتلادئیے تھے جو بدر کی لڑائی میں قتل ہونے والے تھے اور قتل ہونے کے بعد جہاں ان لوگوں کی لاشیں پڑی تھیں وہ مقامات بھی آپ نے پہلے سے صحابہ کو دکھلاوے تھے 1 ؎ صحیح بخاری و مسلم میں انس ؓ ابو طلحہ ؓ وغیرہ کی روایتیں ہیں جن میں آنحضرت ﷺ نے قریش کے اس سرکش لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اے لوگو تم نے اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا پایا 2 ؎ یہ حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں جن سے آیات قرآنی کے جھٹلانے والے قریش کی دین و دنیا کی بد انجامی کا نتیجہ معلوم ہے۔
Top