Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 40
قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ١ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتَكُمْ : بھلا دیکھو اِنْ : اگر اَتٰىكُمْ : تم پر آئے عَذَابُ : عذا اللّٰهِ : اللہ اَوْ : یا اَتَتْكُمُ : آئے تم پر السَّاعَةُ : قیامت اَغَيْرَ اللّٰهِ : کیا اللہ کے سوا تَدْعُوْنَ : تم پکارو گے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ تو کیا تم (ایسی حالت میں) خدا کے سوا کسی اور کو پکارو گے ؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ) ۔
(40 ۔ 49) ۔ اوپر ذکر تھا کہ مکہ کے بت پرست لوگ مصیبت کے وقت بتوں کو چھوڑ کر خالص دل سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ الٰہی میں رفع مصیبت کی التجا پیش کیا کرتے تھے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرک بت پرستوں کو یوں سمجھایا ہے کہ وہ کبھی کبھی اوپر کی مصیبتیں تو درکنار جس وحدہ لا شریک نے تم لوگوں کو کان سننے کے لئے آنکھیں دیکھنے کے لئے دل بھلی بری بات سمجھنے کے لئے یہ سب اپنی نعمتیں عنایت فرمائی ہیں اگر وہ وحدہ لا شریک تم لوگوں کو پھر اندھا کردیوے یا تمہارا دل الٹ کر تمہیں دیوانہ بنا دیوے تو کیا تمہارے بتوں میں اتنی قدرت ہے کہ وہ تم کو پھر اصلی حالت پر کر دیویں مکہ کے قحط کی اوپری میں تو تم اپنے بتوں کو خوب آزما چکے کہ ان میں سے کچھ بھی نہ ہوسکا اب تم میں آخر کچھ لوگ بہرے اندھے دیوانے موجود ہیں ان کو اچھا کردینے میں اپنے بتوں سے مدد لی جاوے نتیجہ آخر وہی ہوگا جو مکہ کے قحط کے وقت میں ہوا۔ باوجود اس پوری فہمائش کے جو تم حق سے پھرے جاتے ہو تو یہ تمہارا قابل سزا ایک جرم ہے وقت مقررہ آنے پر رات کو غفلت کی حالت میں یا دن کو کھلم کھلا اس جرم کی سزا میں اگر تم پر کوئی عذاب الٰہی آگیا تو اس سے تمہارا بچنا مشکل ہے۔ رہی یہ بات کہ ایسا بڑا شق القمر دیکھنے اور اس کو جادو بتلانے کے بعد تم لوگ ہر گھڑی اپنی خواہش کے موافق اللہ کے رسول سے معجزے جو چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو اس نہیں بھیجا کہ وہ ہر گھڑی منکر شریعت لوگوں کو طرح طرح کے معجزے دکھاویں اور وہ منکر شریعت لوگ ان معجزوں کو جادو بتلاویں بلکہ اللہ کے رسول تو اس لئے آئے ہیں کہ وہ فرمانبرداری لوگوں کو عقبیٰ کی بہبودی کی خوشخبری سنا دیویں اور نافرمان لوگوں کو عقبیٰ کے عذاب سے ڈراویویں اب جو کوئی اللہ کے رسول کی نصیحت کو مان کر راہ راست پر آجاوے گا اس کو عقبٰی کے عذاب سے بےخوف رہنا چاہیے ہاں نافرمان لوگوں کو نافرمانی کی سزا میں عقبیٰ کا سخت عذاب بھگتنا پڑے گا۔ جس خوشحالی اور اس خوشحالی کے عیش و عشرت کے گھمنڈ میں تم لوگ عقبیٰ کے عذاب سے غافل ہو کر تنگ دست مسلمانوں سے طرح طرح کا مسخرا پن کرتے ہو جب عقبیٰ کے عذاب سے پالا پڑے گا تو اس عذاب کے آگے یہ دنیا کا عیش تمہیں یاد بھی نہ رہے گا اسی طرح جن تنگ دست مسلمانوں سے تم لوگ یہاں دنیا میں مسخرا پن کرتے ہو جب عقبیٰ میں یہی لوگ اپنی تنگ دستی کی تکلیف پر صبر کرنے کے اجر میں جنت کی بڑی بڑی نعمتیں پاویں گے تو ان کو یہ دنیا کی تنگ دستی قابل قدر چیز معلوم ہوگی۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا بڑے بڑے نافرمان خوشحال لوگ دوزخ کے عذاب کے آگے قسم کھا کر دنیا کے عیش و آرام کا انکار کریں گے اسی طرح تنگ دست فرمانبردار لوگ جنت کی نعمتوں کے آگے دنیا کی تنگ دستی کو بالکل بھول جاویں گے 1 ؎۔ یہ حدیث دنیا کے نافرمان خوشحال اور فرمانبرار تنگ دست لوگوں کے عقبیٰ کے حال کی تفسیر ہے۔
Top