Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا١ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے طِيْنٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَضٰٓى : مقرر کیا اَجَلًا : ایک وقت وَاَجَلٌ : اور ایک وقت مُّسَمًّى : مقرر عِنْدَهٗ : اس کے ہاں ثُمَّ : پھر اَنْتُمْ : تم تَمْتَرُوْنَ : شک کرتے ہو
وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر (مرنے کا) ایک وقت مقرر کردیا۔ اور ایک مدت اسکے ہاں اور مقرر ہے پھر بھی تم (اے کافرو خدا کے بارے میں) شک کرتے ہو۔
(2 ۔ 3) ۔ ابو داؤد اور ترمذی میں ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کو ایک مٹھی خاک سے جو تمام زمین سے لی گئی ہے بنایا ہے اس واسطے ان کی نسل میں طرح طرح کے لوگ ہیں ہر جگہ کی مٹی کے اثر سے کوئی گورا ہے تو کوئی بالکل کالا ہے کوئی سانولا کوئی بد مزاج، سخت خو، کوئی نیک مزاج 1 ؎، نرم خو ابن حابن نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے 2 ؎۔ کافر اور دھریہ مزاج کے لوگ مرنے کے بعد پھر پیدا ہونے کے خبر قرآن مجید میں سن کر بڑے تعجب سے کہتے تھے کہ { مَنْ یُحْیِ الْعِظاَمَ وَ ھِیَ رَمِیْمٌ } (36۔ 78) جس کا مطلب یہ ہے کہ ہڈیوں کی مٹی ہوجانے کے بعد پھر دوبارہ پیدائش کیونکر ہوگی ان کے قائل کرنے کو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ان کو جتلایا کہ آخر وہ ہڈیاں گل سڑ کر ایسی مٹی تو ہوں گی جس طرح کہ مٹی کے آگے تھی جس مٹی سے ایک پتلا ایسا بنایا گیا جس میں کروڑ ہا پتلوں کے بن جانے کی صلاحیت رکھ دی گئی جس صلاحیت کے اثر سے آج تک اس پتلے کی نسل چلی آتی ہے جس میں یہ منکر حشر بھی داخل ہیں پھر جس قادر نے کروڑہا پتلے کا ایک پتلا ایک جائز طور پر ایک مٹھی خاک سے بنا دیا اور اس پتلے سے کروڑ ہا روحوں کا علق رو کا پیدا کردیوے بلکہ پتلے میں پتلا جو بن چکا ہے اور ایک جسم میں کروڑہا جسم اور ایک روح کے تعلق میں کروڑہا روحوں کا تعلق ہے جس کے سبب سے دادا سے لے کر پوتا پڑپوتا سب پیدا ہوجاتے ہیں اور پھر پر یوتے کو دیکھوتو دادا بن جاتا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ جو کچھ ہوچکا ہے اور سب کی آنکھوں کے سامنے ہے وہ ایسا مشکل تھا جہاں عقل کے پر جلتے ہیں اور باوجود اس بلند پروازی کے وہاں پر قینچ جانور کی طرح اڑنے سے عقل بےبس ہے اس کے بعد دوبارہ جو کچھ ہونا ہے وہ تو نہایت سہل ہے جو صانع ایک مشکل صنعت کو کرچکی اس کو آسان صنعت کیا مشکل ہے مثلاً ایک گھڑی سازایسی گھڑی بنا چکا ہے جس گھڑی میں تاریخ کی سوئی دن کی سوئی وقت کی سوئی گھنٹہ کی آواز بیداری سب کچھ ہے پھر یہ کون عقل کا پورا انکار کرسکتا ہے کہ اس گھڑ ساز کو الگ الگ پرزے بنانے مشکل ہیں اسی حکمت سے اللہ تعالیٰ نے پہلی پیدائش کو مشکل اور دوسری پیدائش کو آسان رکھا ہے کہ مشکل کام کے طے ہوجانے کے بعد آسان کام کے ہونے کی طرف لوگوں کا قیاس دوڑ سکے اور قیاس دوڑانے کی ہدایت اپنے کلام پاک میں لوگوں کو یوں فرمائی ہے { وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْئَاۃَ الْاُوْلٰی فَلَوْلاَ تَذَکَّرُوْنَ } (الواقعہ) یعنی پہلی پیدائش کو تم جان چکے ہوں پھر کیوں نہیں پہلی پیدائش کے قیام پر تم دوسری پیدائش کو دھیان کرتے۔ ایک عالمؔ پابند شریعت اور ایک دہریہ منکر حشر کا ایک دفعہ مناظرہ ہوا دہریہ نے بڑی بحث کے بعد دوبارہ پتلے کا بن جانا تو مان لیا مگر دوبارہ روح اور جسم کے تعلق میں تردد رہا۔ عالم پابند شریعت نے اس تردد کا جواب دیا کہ روح کی مثال پر دار جانور کی ہے اور جسم کی مثال پنجرہ کی ہے کیونکہ جس طرح جانور کے اڑ جانے کے بعد پنجرہ خالی رہ جاتا ہے اسی طرح روح کے نکل جانے کے بعد بدن خالی رہ جاتا ہے اور پہلے تعلق میں طائر روح اس جسم کے پنجرہ سے اجنبی مثل طائر و حشی کو عمر طبعی کی مدت تک بدن کے پنجرے میں بند کردیا جس کے سبب سے عمر طبعی تک بدن کے پنجرہ میں رہ کر وہ جانور جو ایک پلے ہوئے طوطے یا کبوتر وغیرہ کے موافق ہوگیا تو یہ تو رات دن آنکھوں دیکھنے کی بات ہے کہ پلے ہوئے جانور کبھی پنجرہ سے نکل جاتے ہیں تو اپنے پنجرہ میں خود چلے جایا کرتے ہیں اس میں تردد کیا کہے اس جواب سے وہ دہریر شخص بہت قائل ہوا اس آیت میں اجل کا ذکر اللہ تعالیٰ نے دو دفعہ جو فرمایا ہے اس کے دو معنی ہیں جو شاہ عبد القادر صاحب نے اپنے فائدے میں ذکر کئے ہیں کہ ایک اجل ہر ایک شخص کے پیدا ہونے کی تاریخ تک کی ہے اور دوسری اجل تمام دنیا کی ہے جو دنیا کی پیدائش سے پہلے صور تک ہے دوسری اجل کے ساتھ عندہ جو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے ختم ہونے کو قیامت کے آنے کا وقت سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں ہاں ہر ایک شخص کی اجل کا وقت ملک الموت کو جتلا دیا جاتا ہے یہ معنی حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور ان کے ش اگر مجاہد اور سعید بن جبیر نے سلف میں سے اختیار کئے ہیں دوسری معنی ترجمان قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے اپنے دوسرے قول میں جو اختیار کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ ہر ایک انسان کے لئے دو مدتیں اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں جن کا نام اجل ہے وہ دونوں اجلیں لوح محفوظ میں لکھی ہیں ایک مدت تو روز پیدائش سے موت کے وقت تک کا زمانہ ہے دوسری مدت وقت موت سے پھر جینے اور حساب و کتاب کے لئے اللہ کے روبرو کھڑے ہونے کا زمانہ ہے 1 ؎ ابن ماجہ میں ثوبان ؓ سے جو روایت ہے کہ نیکی سے آدمی کی عمر بڑھ جاتی ہے 2 ؎ اس کے معنی یہی ہیں کہ نیکی کرنے کے سبب سے کچھ مدت پچھلے زمانہ سے اگلے زمانہ میں اللہ تعالیٰ بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی نیکی نہیں کرتا اس کی عمر کے گھٹنے کا یہی مطل ہے کہ اس کی اصلی عمر پوری ہوتے ہی وہ مرجانا ہے عالم بزرخ کے زمانہ میں کچھ دن اس کی عمر میں نہیں بڑھتے اور لوح محفوظ میں یہ تفصیل بھی لکھی ہوئی ہے کہ زید کی اصلی عمر اتنی ہے لیکن فلاں نیکی کی جزا میں اس قدر مدت عالم برزخ کے زمانہ میں سے اس کی اصلی عمر میں بڑھا دینے سے وہ اس مدت تک زندہ رہ کر مرے گا۔ اور خالد نے نیکی نہیں کی اس لئے اس کی عمر میں عالم برزخ کے زمانہ میں سے کچھ مدت نہیں بڑھی حاصل کلام یہ ہے کہ جس طرح پہلی اجل کا حال سب کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ جب اس کا وقت آجاتا ہے تو پھر ٹل نہیں سکتا اسی طرح جب دوسرے وعدہ کے ظہور کا وقت آجاوے گا تو آج اس میں شک و شبہ کر کے اس سے غافل رہنے والے اس وقت اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیویں گے اور پھر سب شک و شبہ ان کا جاتا رہے گا اس واسطے ہر عقل مند کو یہ سچ لینا چاہیے کہ دنیا کا بڑا انتظام بغیر کسی نتیجہ کے کھیل تماشے کے طور پر نہیں ہے بلکہ اس کا نتیجہ وہی ہے جو ان لوگوں کو گھڑی گھڑی سمجھایا جاتا ہے کہ اس جہان کے بعد دوسرا سزا و جزا کا جہان ضرور قائم ہونے والا ہے اور وہ اللہ جس کی بادشاہت و حکومت آسمان و زمین پر ہے اپنی آسمانی بادشاہت میں سزا و جزا کا فیصلہ ضرور کرنے والا ہے جس کے فیصلہ کے وقت کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی کیونکہ اس کو انسان کے دل کی نیت کا حال اور انسان کے ہاتھ پیروں کے کاموں کا حال ذرہ ذرہ سب معلوم ہے دنیا میں جب تک انسان جیتا ہے اس کو اختیار ہے کہ اس فیصلہ کے لئے اچھی بڑی جیسی روداد چاہے جمع کرلے دورروز نامچہ نویس ہر وقت اس کے ساتھ ہیں جو تاریخ پیشی کے لئے ہر طرح کی روداد لکھتے رہتے ہیں پیشی بھی وہ پیشی ہے جس میں انسان کے ہاتھ پاؤں بھی گواہی دینے کو تیار ہوجاویں گے چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث 1 ؎ اس گواہی کے باب میں ایک جگہ گذر چکی ہے اس لئے ہر صاحب عقل کا کام ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس تاریخ پیشی کے لئے اچھی روداد جمع کرے ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے شداد بن اوس ؓ کی حدیث گذرچ کی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا عقل مند وہ شخص ہے جو اپنے نفس پر قادر ہو کر موت کے آنے سے پہلے موت کے بعد کے لئے کچھ نیک عمل کر لیوے اور نادان وہ ہے جو عمر بھر نیک کاموں سے غافل اور برے کاموں میں مصروف رہے اور پھر عقبیٰ میں راحت کی توقع رکھے ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے 2 ؎ قیامت کے دن نیک و بد کی جزا و سزا کا جو فیصلہ آخر ہوگا اس کے لئے رواد جمع کرنے کی گویا یہ حدیث تفسیر ہے۔
Top