Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 161
قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ١ۚ۬ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ۚ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
قُلْ : کہہ دیجئے اِنَّنِيْ : بیشک مجھے هَدٰىنِيْ : راہ دکھائی رَبِّيْٓ : میرا رب اِلٰي : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا دِيْنًا : دین قِيَمًا : درست مِّلَّةَ : ملت اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک کا ہو کر رہنے والا وَ : اور مَا كَانَ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
کہہ دو کہ میرے پروردگار نے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے۔ (یعنی) دین صحیح مذہب ابراہیم کا جو ایک (خدا) ہی کی طرف کے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔
(161 ۔ 163) ۔ اوپر ذکر تھا کہ شیطان کے بہکانے سے عبادت الٰہی کے صحیح طریقہ میں لوگوں نے اپنی طرف سے غلط راہیں نکال لی ہیں اب ان غلط راہوں میں مکہ کے مشرک لوگوں کی یہ غلط راہ تھی کہ ان لوگوں نے ملت ابراہمی کو بگاڑ کر بت پرستی کو اپنا دین ٹھہرا لیا تھا بتوں کی پوجا کرتے تھے ان کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے اور اسی کو ملت ابراہیمی جانتے تھے اس لئے اس آیت میں فرمایا اے رسول اللہ کے ان مشرکوں سے کہہ دو کہ تم لوگ تو بت پرست ہو اور ابراہیم خلیل اللہ نے اسی بت پرستی کی نفرت کے سبب سے اپنے وطن اپنے باپ اپنی قوم سب کو چھوڑا اور اس ہجرت کے بعد جب ابراہیم خلیل اللہ نے کعبہ بنایا اور اس کے سبب سے مکہ کی آبادی کی بنا پڑی تو انہوں نے مکہ اور اس میں آباد لوگوں کو بت پرستی سے بچایا۔ تمہارے بڑوں میں سے عمر وبن لحی نے دعائے ابراہمی کے برخلاف اولاد ابراہیمی اور مکہ میں بت پرستی پھیلائی اب تم لوگ بھی اس لکیر کے فقیر ہو اور پھر اپنے آپ کو اولاد ابراہیمی اور ملت ابراہیمی کا پابند گنتے ہو یہ اتنی بڑی غلطی ہے اور ان مشرکوں سے یہ بھی کہہ دو کہ جو سیدھا راستہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بتایا ہے حقیقت میں ملت ابراہیمی وہ ہے کہ میری عبادت میری قربانی میری زندگی موت سب اللہ کے حکم کے موافق ہے تم لوگوں کی طرح میں کسی دوسرے کو ان باتوں میں اللہ کا شریک نہیں ٹھہراتا امت کے سب لوگوں سے پہلے اللہ کے رسول احکام الٰہی کے پورے پابند اور حکم بردار ہوتے ہیں اور پھر ان کی حکم برداری کا اثر امت کے لوگوں پر پڑتا ہے اس لئے فرمایا کہ میں تم سب سے پہلے حکم بردار ہوں عمر وبن لحی کا قصہ اوپر گذر چکا ہے کہ پہلے پہل اسی شخص نے ملت ابراہیمی کا بگاڑ کر مکہ میں بت پرستی پھیلائی۔ یہ عمر وبن لحی وہی شخص ہے جس کو آنحضرت ﷺ نے دوزخ کی آگ میں جلتے ہوئے دیکھا یہ دیکھنا آپ کا اس وقت کا ہے جب سورج گرہن کی نماز میں دوزخ اور جنت کو آپ نے دیکھا تھا جس کا ذکر صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے آیا صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاض ؓ کی حدیث گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں اول سے آخر تک ہونے والا تھا اپنے علام ازلی کے موافق اللہ تعالیٰ نے وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی وہ حدیث بھی گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے قرآن شریف کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی ہے۔ یہ حدیثیں آیت کی گویا تفسیر ہیں آیت اور حدیثوں کو ملا کر حاصل مطلب یہ ہوا کہ مشرکین مکہ میں سے لوح محفوظ کے نوشتہ کے موافق جو لوگ عمر وبن لحی کے ساتھی ٹھہر چکے تھے ان کے حق میں قرآن شریف کی نصیحت کا اثر اسی طرح رائیگاں گیا جس طرح بری زمین میں مینہ کے پانی کا اثر رائیگاں جاتا ہے پھر فتح مکہ ہوگیا جب ایسے سب لوگ شرک کی حالت میں مر مٹ کر عمر وبن لحی سے جاملے اور وہ لوگ باقی رہ گئے جو لوح محفوظ کے نوشتہ کے موافق راہ راست پر آنے والے تھے تو ان کے حق میں قرآن شریف کی نصیحت اسی طرح مفید ہوئی جس طرح اچھی زمین میں مینہ کا پانی مفید ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام مکہ میں اسلام پھیل گیا صراط مستقیم اوردین صحیح دونوں ایک ہیں۔ تفسیر صراط مستقیم کی آیت وان ھذاصراطی مستقیما کی تفسیر میں گذر چکی ہے :۔
Top