Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 151
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْ١ۚ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
قُلْ : فرمادیں تَعَالَوْا : آؤ اَتْلُ : میں پڑھ کر سناؤں مَا حَرَّمَ : جو حرام کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب عَلَيْكُمْ : تم پر اَلَّا تُشْرِكُوْا : کہ نہ شریک ٹھہراؤ بِهٖ : اس کے ساتھ شَيْئًا : کچھ۔ کوئی وَّبِالْوَالِدَيْنِ : اور والدین کے ساتھ اِحْسَانًا : نیک سلوک وَلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد مِّنْ : سے اِمْلَاقٍ : مفلس نَحْنُ : ہم نَرْزُقُكُمْ : تمہیں رزق دیتے ہیں وَاِيَّاهُمْ : اور ان کو وَلَا تَقْرَبُوا : اور قریب نہ جاؤ تم الْفَوَاحِشَ : بےحیائی (جمع) مَا ظَهَرَ : جو ظاہر ہو مِنْهَا : اس سے (ان میں) وَمَا : اور جو بَطَنَ : چھپی ہو وَلَا تَقْتُلُوا : اور نہ قتل کرو النَّفْسَ : جان الَّتِيْ : جو۔ جس حَرَّمَ : حرمت دی اللّٰهُ : اللہ اِلَّا بالْحَقِّ : مگر حق پر ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ : تمہیں حکم دیا ہے بِهٖ : اس کا لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لو (سمجھو)
کہہ کہ (لوگو) آؤ میں تمہیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے پروردگار نے تم پر حرام کی ہیں ( ان کی نسبت اس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ سے (بد سلوکی نہ کرنا بلکہ) سلوک کرتے رہنا اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا (کیونکہ) تم کو اور ان کو ہمیں رزق دیتے ہیں۔ اور بےحیائی کا کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا۔ اور کسی جان (والے کو) جس کے قتل کو خدا نے حرام کردیا ہے قتل نہ کرنا۔ مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں تاکید فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔
(151 ۔ 152) ۔ اوپر کی آیتوں میں پہلے تو اللہ تعالیٰ نے باغ اور زراعت کا ذکر فرمایا تاکہ مشرکین مکہ کو حشر کا جو انکار ہے باغ اور کھیتی کی حالت پر غور کرنے سے ذرا ان کی آنکھیں کھلیں اور سمجھیں کہ جس طرح اناج کا سوکھا دا نہ اور پھل کی سوکھی گٹھلی کے ایک جسم سے اسی طرح کے ہزارہا کھجور کروڑہا دانوں اور اور پھلوں اور گٹھلیوں کے جسم پیدا ہوجاتے ہیں اور ان کے دانے اور گٹھلیاں مثل مردہ جسم کے سوکھ جانے کے بعد تروتازہ دانوں اور گٹھلیوں کے پیدا ہونے کا سبب قرار پاتے ہیں اسی طرح ایک آدمی کے جسم کی مردہ مٹی سے پھر تروتازہ طور پر حشر کے دن اس حسم کا پیدا ہوجانا کیا اس سے بھی مشکل ہے باغ اور کیھتی کے ذکر کے بعد ان چند رسموں کا ذکر فرمایا جو بےعقلی سے مشرکین مکہ نے ایام جاہلیت میں ٹھہرا رکھیں تھیں تاکہ جس عقل کے بھروسے پر انہوں نے حشر کا انکار کیا ہے اس عقل کی قلعی بھی کھل جاوے اور بےوقوفی سے چند چیزیں جو انہوں نے اپنے اوپر حرام کرلیں تھیں ان کا اور یہود کی سرکشی سے ان پر جو چند چیزیں حرام ہوئی تھیں ان کا اور اصل شریعت محمدی میں اس وقت حرام جو چیزیں تھیں ان کا یہ سب ذکر بطور تمہید کے فرما کر ان تین آیتوں میں اصل باتیں جن سے دنیا میں آدمی کو بچنا چاہئے ذکر فرمائے ہیں اور بعض ان میں سے وہ باتیں ہیں جو مشرکین مکہ میں بطور عام پھیلی تھیں مثلا بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہرانا تنگی معاش سے لڑکیوں کو مار ڈالنا ظاہر کے زنا کو عیب شمار کرنا اور مخفی طور پر کوئی زنا کرے تو اس کو عیب نہ لگانا آپس میں خون ریزی اور خانہ جنگی کرتا یتیموں کا مال کھانا ‘ جھوٹ بولنا کم تولنا اور ناپنا وعدہ خلافی کرنا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے حسن سلوک کو شریعت کی پیروی کی نصیحت کو ان باتوں کے چھوڑ دینے کی نصیحت کے ساتھ بلا کر ایک عام اور جامع نصیحت ان آیتوں میں فرما دی ہے ترمذی میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے اور مسند امام احمد اور مستدرک حاکم میں عبادہ بن صامت ؓ سے ان آیتوں کی بابت جو روایت ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کو آنحضرت ﷺ کی مہری دستاویز نجات کے لئے دیکھنے منظور ہو وہ ان دوزخی ہے اگرچہ ترمذی نے عبداللہ مسعود ؓ کی روایت کو حسن غریب کہا ہے لیکن عبادہ بن صامت ؓ کی حدیث کو بھی عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت کو تقویت ہوجاتی ہے کیونکہ عبداللہ بن مسعود ؓ کی اس روایت کا مضمون عبادہ بن صامت ؓ کی بیعت کی حدیث کے قریب ہے حَرَّمَ رَبَّکُمْ عَلَیَکُمْ اَنْ لَّاتُشْرِ کُوْایہٖ شَیْئًا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں پر شرک حرام کیا ہے اس لئے تم لوگوں کو چاہئے کہ شرک سے باز آؤ۔ اگرچہ ماں باپ کے ساتھ برائی سے پیش آنا حرام ہے لیکن اس کی جگہ ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے کا ذکر فرمایا تاکہ معلوم ہوجاوے کہ ماں باپ کے ساتھ فقط برائی سے پیش نہ آنا کافی نہیں ہے بلکہ برائی سے بچ کر ان کے ساتھ ہر ایک طرح کا احسان بھی ضرور ہے ان آیتوں میں مشرکین مکہ کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ تم لوگوں نے زبردستی اپنی اٹکل سے بعضی چیزوں کو اپنے اوپر جو حرام ٹھہرا رکھا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم سے تم پر حرام نہیں ہیں بلکہ اللہ کے حکم سے اصل حرام چیزیں یہ ہیں جو تم کو ان آیتوں میں جاتی ہیں صحیح بخاری ومسلم میں عبداللہ بن مسعود ؓ عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ اور ابوہریرہ ؓ سے اور معتبر سند سے مستدرک حاکم میں بریدہ ؓ سے جو روایتیں ہیں ان میں آنحضرت ﷺ نے ان چیزوں کا ذکر فرمایا ہے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ شرک ان سب میں بڑا گناہ ہے اور باقی سب کبیرہ گناہ ہیں یہ حدیثیں ان آیتوں کو گویا تفسیر ہیں حاصل مطلب یہ ہے کہ ان گناہوں میں شرک تو ایسا بڑا گناہ ہے کہ اگر مشرک شخص بغیر توبہ کے مرجاویگا تو اس کی بخشش نہ ہوگی اور سوا شرک کے اور گناہوں کا گنہگار شخص اگر بغیر توبہ کے مرجاویگا تو ایسے شخص کی مغفرت اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے چاہے وہ ایسے شخص کو بغیر عذاب دوزخ میں جاویگا زیادہ تفصیل اس کی سورة نساء کی آیت اِنَّ اللّٰہَ لَایَغْفِرُ اَنْ یَّشْرَک بہٖ وَیَغفِْرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لَمِنْ یَّشَآئُ (4: 48 1160) کی جاوے نیک کاموں کے کرنے اور بدکاموں سے بچنے کی جتنی صحیح حدیثیں ہیں وہ سب آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہیں :۔
Top