Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 131
ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ یَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ اَنْ : اس لیے کہ لَّمْ يَكُنْ : نہیں ہے رَّبُّكَ : تیرا رب مُهْلِكَ : ہلاک کر ڈالنے والا الْقُرٰي : بستیاں بِظُلْمٍ : ظلم سے (ظلم کی سزا میں) وَّاَهْلُهَا : جبکہ ان کے لوگ غٰفِلُوْنَ : بیخبر ہوں
(اے محمد) یہ (جو پیغمبر آتے رہے اور کتابیں نازل ہوتی رہیں تو) اس لیے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں کہ بستیوں کو ظلم سے ہلاک کردے اور وہاں کے رہنے والوں کو کچھ بھی خبر نہ ہو۔
(131 ۔ 134) ۔ اوپر ذکر تھا کہ قیامت کے دن اللہ نافرمان جن و انس سے پوچھے گا کہ کیا اللہ کے رسولوں کی معرفت تمہیں اللہ کا کلام نہیں پہنچا جس میں قیامت کے آنے کا اور اس دن نافرمان لوگوں کے عذاب میں پکڑے جانیکا ذکر تھا ان آیتوں میں فرمایا اے رسول اللہ کے یہ آسمانی کتابیں اور رسول اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سے اس لئے بھیجے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ناانصانی کے طور پر کسی بستی کے لوگوں کو غفلت اور بیخبر ی کی حالت میں غفلت کرنا منظور نہیں اسی واسطے اول صاحب شریعت نبی نوح (علیہ السلام) کی قوم سے لے کہ فرعون اور اس کی قوم تک کے لوگوں کو اللہ کے رسولوں کی معرفت اللہ کا کلام پہنچایا گیا جس میں ہر طرح کی نصیحتوں کے سمجھنے کے لئے پوری مہلت دی گئی باوجود اس کے وہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہ آئے تو دنیا میں طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگئے اور عقبے میں اپنے عملوں کے موافق جلد سزا پاویں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے عملوں کے موافق جزا سزا کے درجے ٹھہرا رکھے ہیں اور کوئی چھوٹا یا بڑا عمل اس کے علم سے باہر نہیں ہے پھر فرمایا نیک عملوں کی ہر شریعت میں تاکید جو کی گئی ہے تو کچھ اس واسطے نہیں کی گئی کہ اللہ کو کسی کے نیک عملوں کی کچھ پرواہ ہے اس کی ذات تو سب ضرورتوں سے بےپروا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے یہ بھی ہے کہ جس طرح اس کی صفتوں میں بےپروائی کی صفت ہے اسی طرح رحم کی صفت بھی ہے اسی رحم کی صفت کے موافق اس نے ایک نیکی کا اجر دس سے لے کر سات سو تک اور کبھی اس سے بھی زیادہ ٹھہرایا ہے اس صفت کے موافق اس نے جس طرح پچھلی قوموں کو نصیحت کے سمجھنے کی مہلت دی تھی اس طرح اس نے قریش کو مہلت دے رکھی ہے ورنہ ان کی سرکشی کے لحاظ سے اگر اللہ چاہتا تو اب تک پچھلی قوموں کی طرح ان کو ہلاک کر کے دوسری کسی فرمانبردار قوم کو ان کی جگہ اسی طرح پیدا کردیتا جس طرح پچھلی قوموں کی ہلاکت کے بعد ان کو پیدا کردیا مگر ان کو یہ خوب سمجھ لیتا چاہئے کہ مہلت قیامت کے وعدہ کو نہیں ٹال سکتی اس مہلت میں اگر یہ لوگ کچھ سامان اس دن کے عذاب سے بچنے کا نہ کریں گے تو وہ عذاب دنیا کی آفتوں کی طرح نہیں ہے جس سے آدمی کہیں بھاگ کر بچ جاتا ہے اس عذاب سے بھاگنے کی جگہ بھی ان کو کہیں نہ ملے گی۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر ؓ کی حدیث قدسی اوپر گذر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمام دنیا کے جنات اور انسان نیک ہوجاویں تو ان کی نیکی سے اللہ کی بادشاہت میں کچھ بڑھ نہیں سکتا اور یہ سب بد ہوجاویں تو کچھ گھٹ نہیں سکتا صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث بھی گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو اپنی رحمت کی صفت ایسی پیاری ہے کہ دنیا بھر کے لوگ اگر گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کو دنیا سے اٹھا کر ان کی جگہ اور گناہ کرنے والی مخلوقات پیدا کرتا اور جب یہ لوگ گناہ کر کے توبہ استغفار کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کو دنیا سے اٹھا کر ان کی جگہ اور گناہ کرنے والی مخلوقات پیدا کرتا اور جب یہ لوگ گناہ کر کے توبہ استغفار کرتے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی صفت کو کام میں لاکر ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ پہلی حدیث اللہ تعالیٰ کی بےپروائی کی گویا تفسیر ہے اور دوسری اس کی رحمت کی :۔
Top