Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 128
وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا١ۚ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ١ۚ وَ قَالَ اَوْلِیٰٓؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّ بَلَغْنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیْۤ اَجَّلْتَ لَنَا١ؕ قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ
وَيَوْمَ : اور جس دن يَحْشُرُهُمْ : وہ جمع کرے گا جَمِيْعًا : سب يٰمَعْشَرَالْجِنِّ : اے جنات کے گروہ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ : تم نے بہت گھیر لیے (اپنے تابع کرلیے) مِّنَ : سے الْاِنْسِ : انسان۔ آدمی وَقَالَ : اور کہیں گے اَوْلِيٰٓؤُهُمْ : ان کے دوست مِّنَ : سے الْاِنْسِ : انسان رَبَّنَا : اے ہمارے رب اسْتَمْتَعَ : ہم نے فائدہ اٹھایا بَعْضُنَا : ہمارے بعض بِبَعْضٍ : بعض سے وَّبَلَغْنَآ : اور ہم پہنچے اَجَلَنَا : میعاد الَّذِيْٓ : جو اَجَّلْتَ : تونے مقرر کی تھی لَنَا : ہمارے لیے قَالَ : فرمائے گا النَّارُ : آگ مَثْوٰىكُمْ : تمہارا ٹھکانہ خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہو گے فِيْهَآ : اس میں اِلَّا : مگر مَا : جسے شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہے اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب حَكِيْمٌ : حکمت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور جس دن وہ سب (جن وانس) جو جمع کریگا (اور فرمائے گا کہ) اے گروہ جناّت تم نے انسانوں سے بہت (فائدے) حاصل کیے۔ تو جو انسانوں میں ان کے) (دوست دار ہوں گے وہ کہیں گے کہ پروردگار ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے اور (آخر) اس وقت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا۔ خدا فرمائے گا (اب) تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ ہمیشہ اس میں (جلتے) رہو گے مگر جو خدا چاہے۔ بیشک تمہارا پروردگار دانا اور خبردار ہے۔
جن شیاطینوں کے بہکانے سے بت پرست لوگ دنیا میں بت پرستی کرتے تھے اور جو شیطان الجن شیاطین الانس کے دل میں ملمع کی باتیں لوگوں کے بہکانے کے لیے ڈالتے تھے قیامت کے دن ان سب کو ساتھ کھڑا کیا جاکر جس طرح ذلیل کیا جاویگا مکہ کے بت پرستوں کی تنبیہ کے لیے اس آیت میں اس کا ذکر فرمایا ہے قَدِ اسْتَکْثَرْ نُمِْ مِنَ الِاْنِسْ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی آدم کے بہکانے والے شیاطینوں سے قائل کرنے کے طور پر اللہ تعالیٰ یہ پوچھے گا کہ تم نے بہت سے بنی آدم کہ بہکانے کا وبال اپنے سرلیا یا نہیں۔ شیاطین تو اس کا کچھ جواب نہ دے سکیں گے بہکنے والے بنی آدم فقط یہ کہویں گے کہ ہم اور شیاطین مل جل کر ایک دوسرے سے جیتے جی فائدہ اٹھاتے رہے۔ ہم شیاطین کو مانتے اور ان کی نذر ونیاذ کرتے رہے اور یہ ہم کو ملمع اور بناوٹ کی باتوں سے بہکاتے اور عقبے سے غافل بناتے رہے جس سے ہم ہمیشہ ٹھکانا ہمیشہ کے لئے جہنم ہے تفسیر سدی وغیرہ میں اجل کے معنے یہاں موت کے لیے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جیتے جی ہمارا اور شیاطنیوں کا وہ معاملہ رہا جو ہم نے بیان کیا۔ مسند امام احمد اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے ابوسعید خدری ؓ کی حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا شیطان نے اللہ تعالیٰ کے روبرو یہ قسم کھائی ہے کہ بنی آدم کے جیتے جی میں ان کو ہر طرح بہکاؤں گا اس سے معلوم ہوا کہ جن مفسروں نے اجل کے معنے یہاں موت کے کئے ہیں وہ اس صحیح حدیث کے موافق ہیں۔ اِلَّامَاشَائَ اللّٰہ۔ اس کا مطلب حضرت ابی بن کعب اور فتادہ کے قول کے موافق یہ ہے کہ مرنے کی تاریخ سے عذاب قبر ہے اور پھر دوزخ ہے غرض نافرمان لوگوں کے لیے یہ ہمیشہ کا عذاب ہے لیکن دونوں صور کے مابین ان کا عذاب قبر موقوف فرما دیا ہے۔ اس کی زیادہ تفصیل سورة یسین میں مَنْ بَعَثَنَا مِنُ مَّرُقَدِنَا کی تفسیر میں آوے گی حکیم علم (اسکا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک کی نیت کا ہر ایک کے عمل کا خوب حال معلوم ہے اس واسطے اس نے اپنے علم کے موافق اپنی حکمت اور تدبیر سے ہر ایک کی سزا و جزا مقرر کی ہے جس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔
Top