Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 104
قَدْ جَآءَكُمْ بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ١ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَا١ؕ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ
قَدْ جَآءَكُمْ : آچکیں تمہارے پاس بَصَآئِرُ : نشانیاں مِنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَمَنْ : سو جو۔ جس اَبْصَرَ : دیکھ لیا فَلِنَفْسِهٖ : سو اپنے واسطے وَ : اور مَنْ : جو عَمِيَ : اندھا رہا فَعَلَيْهَا : تو اس کی جان پر وَمَآ : اور نہیں اَنَا : میں عَلَيْكُمْ : تم پر بِحَفِيْظٍ : نگہبان
(اے محمد ﷺ ان سے کہہ دو کہ) تم تمہارے (پاس) پروردگار کی طرف سے (روشن) دلیلیں پہنچ چکی ہیں تو جس نے (انکی آنکھ کھول کر) دیکھا اس نے اپنا بھلا کیا اور جو اندھا بنا رہا اس نے اپنے حق میں برا کیا۔ اور میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں۔
(104 ۔ 107) ۔ آنکھوں میں ہر چیز کے دیکھنے کی جو قوت ہے اس کو بصارت کہتے ہیں اور دل میں ہر چیز کے سمجھنے کی جو قوت ہے اس کو بصیرت کہتے ہیں بصائر بصیرت کی جمع ہے۔ شروع سورة سے توحید الٰہی اور قدرت الٰہی کو جو آیت قرآنی گذریں ان کو بصائر فرمایا مطلب یہ ہے کہ شروع سورة سے یہاں تک جو آیتیں گذریں وہ سمجھ دار آدمی کے دل میں قدرت نے ان کو بصائر فرمایا مطلب یہ ہے کہ شروع سورة سے یہاں تک جو آیتیں گذریں وہ سمجھ دار آدمی کے دل میں قدرت الٰہی کا اثر ڈالنے کے لیے اور اس اثر سے توحید الٰہی اس کے دل میں پیدا ہوجانے کے لیے کافی ہیں اب جو کوئی ان آیتوں کو سن کر ان کی نصیحتوں کے موافق عمل کرے گا اس کے عقبی درست ہوجاوے گی اور جو کوئی ان نصیحتوں کے بعد بھی کور باطن رہے گا اس کا خمیازہ اسی کو بھگتنا پڑے گا پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں فقط اللہ کا حکم پہنچانے والا ہوں تمہاری بداعمالی کی گرفت میرے ہاتھ میں نہیں ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ جب چاہے گا تمہاری بداعمالی کا مؤاخذہ فرمادے گا۔ سورة انفال میں آوے گا کہ مشرکین مکہ قرآن کی آیتوں کو جھٹلاتے اور یہ کہتے تھے کہ اگر یہ قرآن کلام الٰہی ہے تو اس کے جھٹلانے کے وبال میں ہم پر کوئی آسمانی عذاب کیوں نہیں آتا اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی معرفت قرآن میں جگہ جگہ یہ جتلا دیا ہے کہ عذاب کا بھیجنا اللہ کے وہ جب چاہے گا تمہاری بد اعمالی کا مؤاخذہ فرمادے گا۔ سورة انفال میں آوے گا کہ مشرکین مکہ قرآن کی آیتوں کو جھٹلاتے اور یہ کہتے تھے کہ اگر یہ قرآن کلام الٰہی ہے تو اس کے جھٹلانے کے وبال میں ہم پر کوئی آسمانی عذاب کیوں نہیں آتا اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو معرفت قرآن میں جگہ جگہ یہ بتلا دیا ہے کہ عذاب کا بھیجنا اللہ کے اختیار میں ہے اللہ کے رسول کے اختیار میں نہیں ہے یہ لوگ ناحق عذاب کی جلدی کرتے ہیں وقت مقررہ پر عذاب کا آجانا بھی اللہ کی قدرت سے کچھ دور نہیں ہے۔ اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے بدر کی لڑائی کے وقت اس وعدہ کا ظہور ہوا کہ عذاب کی جلدی کرنے والے ابوجہل وغیرہ اس لڑائی میں بےگور وکفن بڑی ذلت سے مارے گئے اب آگے فرمایا کہ قرآن کی آیتوں میں ہر طرح کی نصیحت۔ مشرکین کے ہر ایک اعتراض کا جواب۔ سچی پیشین گوئی یہ سب کچھ تفصیل سے اس لیے بیان کیا جاتا ہے کہ جو لوگ علم ازلی میں نیک قرار پا چکے ہیں وہ جان لیویں کہ یہ باتیں ان پڑھ شخص سے بغیر غیب کی مدد کے ہرگز نہیں ہوسکتیں اور جو لوگ علم الٰہی میں بدٹھہر چکے ہیں وہ قرآن کی آیتیں سن کر طرح طرح کی باتیں بناویں کبھی کہویں یہ قرآن پچھلے لوگوں کی کہانی ہے کبھی کہویں محمد ﷺ خود تو ان پڑھ ہیں اہل کتاب سے کچھ باتیں سیکھ کر وہ ہمارے رو برو بیان کرتے ہیں اور اس کا کلام الٰہی مشہور کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ اے رسول اللہ کے ان لوگوں کی بےٹھکانے باتوں کا کچھ خیال نہ کرنا چاہئے بلکہ تم کو یہی چاہئے کہ تم قرآن کی ہدایت کے موافق ان لوگوں کو توحید کے احکام سنائے جاؤ تاکہ توحید سے ان کے کان آشنار ہیں اس کے بعد علم الہی کے موافق ان میں کے جو لوگ شریک پر اڑے ہیں نہ اللہ تعالیٰ ان کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا چاہتا ہے نہ اس نے تم کو اس بات پر مامور اور وکیل کیا ہے کہ ہر ایک مشرک کی حالت کی نگہبانی کر کے اس کو اسلام پر مجبور کیا جاوے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا قرآن شریف ایک ایسا بڑا معجزہ مجھ کو دیا گیا ہے جس کے سبب سے قیامت کے دن سب نبیوں کی امتوں سے میری امت کی تعداد زیادہ ہوگی۔ عبداللہ بن عمر وبن العاص ؓ کی صحیح مسلم کی حدیث بھی گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ماں کے پیٹ میں جب بچہ کا پتلا بن کر تیار ہوجاتا ہے تو اس میں روح پھونکنے سے پہلے اللہ کے حکم کے موافق فرشتہ یہ لکھا لیتا ہے کہ بڑا ہو کر یہ بچہ نیک اٹھے گایا صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوسعید خدری ؓ کی حدیث بھی گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے قرآن کی مثال مینہ کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی برح زمین کی فرمائی ہے یہ حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف میں ایسی کامل نصیحت موجود ہے جس سے بہ نسبت اور امتوں کے آنحضرت ﷺ کی امت کے تعداد قیامت کے دن بڑھ جاوے گی لیکن علم الٰہی کے موافق پہلے لوح محفوظ میں اور پھر ماں کے پیٹ میں جو لوگ بد لکھے جاچکے ہیں ان کے دل میں قرآن کی نصیحت کا اسی طرح کچھ نیک اثر پیدا نہیں ہوگا جس طرح بری زمین میں مینہ کا کچھ نیک اثر نہیں پیدا ہوتا اور مجبور کر کے ایسے بدلوگوں کو راہ راست پر لانا اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں ہے کیونکہ یہ مجبوری اس انتظام الٰہی کے برخلاف ہے جس کی بنیاد پر دنیا پیدا کی گئی ہے کہ بغیر کسی مجبوری کے دنیا میں نیک وبد کو چانچا جاوے دنیا میں پیدا ہونے کے بعد اپنے قصد اور ارادہ سے ہر شخص عمر پھر جو کچھ کرے گا لوح محفوظ میں اور ماں کے پیٹ میں بچہ کے ہونے کے وقت میں اللہ تعالیٰ کے علم ازلی کے موافق ہر شخص کی وہ حالت لکھی گئی ہے اس حالت کے لکھے جانے سے جن لوگوں نے انسان کے مجبور ہونے کا مطلب نکالا ہے ان کی بڑی غلطی ہے :۔
Top