Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 101
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ١ؕ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ١ۚ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
بَدِيْعُ : نئی طرح بنانے والا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین اَنّٰى : کیونکر يَكُوْنُ : ہوسکتا ہے لَهٗ : اس کا وَلَدٌ : بیٹا وَّلَمْ تَكُنْ : اور جبکہ نہیں لَّهٗ : اس کی صَاحِبَةٌ : بیوی وَخَلَقَ : اور اس نے پیدا کی كُلَّ شَيْءٍ : ہر چیز وَهُوَ : اور وہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنیوالا (ہے) اس کے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اس کی بیوی ہی نہیں۔ اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔
(101 ۔ 102) ۔ اللہ تعالیٰ نے پانی قدرت کے ایک اور نمونہ کا یہ ذکر فرمایا کہ جس طرح دنیا میں لوگ کسی چیز کا نمونہ دیکھ کر اس کے موافق کوئی چیز بنالیا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو اس طرح نہیں پیدا کیا بلکہ اس قادر مطلق نے بغیر کسی نمونے اور مثال کے اپنی قدرت سے آسمان زمین کو نیست سے ہمت کیا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر وبن العاض ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں یہ ہے کہ آسمان و زمین کو اس طرح نہیں پیدا کیا بلکہ اس قادر مطلق نے بغیر کسی نمونے اور مثال کے اپنی قدرت سے آسمان زمین کو نیست سے ہمت کیا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمروبن العاض ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں یہ ہے کہ آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ قیامت تک پیدا ہونے والا تھا اس سب کا اندازہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھا ہے اور اس اندازہ کے لکھنے کے وقت اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اس سے معلوم ہوا کہ پانی عرش لوح محفوظ قلم ان چیزوں کی پیدائش آسمان اور زمین کی پیدائش سے پہلے ہے مسند امام احمد اور ترمذی میں عباوہ بن صامت ؓ کی حدیث ہے جس کو ترمذی نے صحیح کہا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم اور لوح محفوظ کو پیدا کیا ہے 3 ؎ اس حدیث کا مطلب علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ پانی اور عرش کے بعد اور سب چیزوں سے پہلے اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ اور قلم کو پیدا کیا ہے یہ مطلب بالکل صحیح اور عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی صحیح حدیث کے موافق ہے حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ سب کچھ سلسلہ بہ سلسلہ اسی قدیم ذات کا پیدا کیا ہوا ہے اس سلسلہ سے پہلے سوا اس کی ذات کے اور کچھ نہ تھا پھر ان نیست سے ہست ہونے والی چیزوں کو نہ اس کی ذات کہ کے ساتھ کچھ مناسبت ہے نہ اس نامناسبتی کے سبب سے کسی کوس کی بی بی یا اولاد کہا جاسکتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ جس نے سب کچھ پیدا کیا عبادت کے قابل وہی ایک معبود ہے۔ جس کو ہر ایک کی فرمانبرداری اور نافرمانی کا ذرا ذرا حال معلوم ہے اور تمام عالم کی نگہبانی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ نہ آسمان کی مجال ہے کہ اس کے حکم کے بغیر زمین پر گر پڑے اور اہل زمین کو ہلاک کر دیوے نہ سمندر کو یہ طاقت کہ اپنی حد سے بڑھ کر دنیا کو ڈبو دیوے۔ غور کرنے سے لے گنتی مثالیں دنیا میں اس طرح کی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم کے پیدا کرنے کے بعد عالم کی ہر ایک چیز کی نگہبانی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے دنیا میں کسی کام کا انتظام کسی شخص کو سونپا جاوے تو اپنے سونے کے وقت وہ شخص اس انتظام کی نگہبانی سے بیخبر ہوجاتا ہے اس لیے ہر وقت کی نگہبانی کے ثبوت کی غرض سے صحیح مسلم کو ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ سوتا نہیں ہے اور سونا اس کو سزاوار بھی نہیں ہے کیونکہ رات دن کے تمام عالم کے انتظام کی نگہبانی اس کے ہاتھ ہے رات کہ لوگوں کے سب عمل دن سے پہلے اور دن کے رات سے پہلے اس کے روبر وہ پیش ہو کر ان کی سزا وجزا کی حد قائم ہوجاتی ہے اسی طرح لوگوں کے رات دن کے رزق اور روزی وغیرہ کا انتظام اس کے روبرو پیش رہتا ہے اس قسم کی اور بھی صحیح حدیثیں ہیں جس میں انسان کی پیدائش موت وحیات کے طرح کے انتظام کا ذکر ہے یہ حدیثیں آیت کے ٹکڑے وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَکِیْل کی گویا تفسیر ہیں :۔
Top