Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 9
وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّیَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْهِمْ١۪ فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا
وَلْيَخْشَ : اور چاہیے کہ ڈریں الَّذِيْنَ : وہ لوگ لَوْ تَرَكُوْا : اگر چھوڑ جائیں مِنْ : سے خَلْفِھِمْ : اپنے پیچھے ذُرِّيَّةً : اولاد ضِعٰفًا : ناتواں خَافُوْا : انہیں فکر ہو عَلَيْھِمْ : ان کا فَلْيَتَّقُوا : پس چاہیے کہ وہ ڈریں اللّٰهَ : اللہ وَلْيَقُوْلُوْا : اور چاہیے کہ کہیں قَوْلًا : بات سَدِيْدًا : سیدھی
اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو (ایسی حالت میں ہوں کہ) اپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں گے اور ان کو ان کی نسبت خوف ہو (کہ ان کے مرنے کے بعد ان بیچاروں کا کیا حال ہوگا) پس چاہیے کہ یہ لوگ خدا سے ڈریں اور معقول بات کہیں۔
(9 ۔ 10) ۔ علمائے مفسرین نے اس آیت کی شان نزول دو طرح بیان کی ہے بعض کہتے ہیں کہ قریب المرگ بیمار کے پاس اوپر والے لوگ بیمار کو ایسی صلاحیں دیا کرتے تھے کہ حق دار وارثوں کا حق مار کر غیروں کے نام پر تیسرے حصہ سے زیادہ نام نمود کے لئے وصیت کرے ان کی ممانعت میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اور اس طرح کے صلاح کاروں کو ڈرایا ہے کہ صلاح نیک دو آج دوسروں کی اولاد کا حق مارا جانے کی صلاح دو گے تو کل تمہاری اولاد کے لئے بھی یہی دن پیش آنے والا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یتیموں کے بڑے بوڑھے یتیموں کو اور یتیموں کے مال کو بےاحتیاطی سے رکھتے تھے ان کے ڈرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ کل کو تمہاری اولاد بھی یتیم ہونے والی ہے دوسروں کی یتیم اولاد کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھو اور اپنی اولاد کو یہ دن یاد کرواؤ رفع اس اختلاف کا یہی ہے کہ آیت عام ہے دونوں حکموں کو شامل ہے چناچہ خود امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے دونوں شان نزول کی روایتیں ہیں۔ صحیح ابن حبان میں ابی برزہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک دن فرمایا کہ قیامت کے دن ایک گروہ خلقت کا قبروں سے جب اٹھے گا تو ان کے منہ اور آنکھ ناک کانوں سے آگ کے شعلے نکلتے ہوں گے صحابہ نے پوچھا کہ حضرت وہ کون لوگ ہیں آپ نے فرمایا یتیموں کا مال کھانے والے 2 اور وصیت میں بےاحتیاطی کرنے کی ممانعت کی یہ حدیث ترمذی 3 اور ابو داؤد کے حوالہ سے اوپر سورة بقر 4 میں گذرچ کی ہے کہ بعض لوگ ساری عمر نیک عمل کرکے آخر وقت وصیت میں بےاحتیاطی کرتے ہیں جس سے ان کے سارے نیک عمل ضائع ہوجاتے ہیں بعض مفسروں نے یہ جو وہم کیا ہے کہ آیت وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانَکُمْ (220/2) سے آیت اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتَامٰی ظُلْمَا۔ منسوخ ہے یہ وہم بالکل غلط ہے یتیم کا مال کھانا کسی طرح جائز نہیں ہے اور نہ آیت وان تخالطو ھم کا مطلب یہ ہے کہ یتیم کا مال کھانا جائز ہے بلکہ اس آیت کا مطلب تو اسی قدر ہے کہ یتیم کے خرچ سے یتیم کے کھانے کے موافق آٹا دال وغیر جنس میں ملا کر پکا کستے ہو غرض یتیم کے مال کی بابت جب اللہ تعالیٰ نے سخت اور تشددی احکام نازل فرمائے تو لوگ بہت ڈر گئے تھے۔ اور جن لوگوں کی پرورش میں یتیم تھے انہوں نے یہاں تک احتیاط کی کہ کھانا بھی الگ پکوانے لگے اس میں ایک طرح کا حرج تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیت وان تخالطوھم سے صرف اس حرج کو رفع فرما دیا ہے کسی حکم کی منسوخی اس آیت سے منسوخ نہیں فرمائی ہے اوپر حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث گذر چکی ہے 1 جس میں آنحضرت ﷺ نے یتیم کے مال کھا جانے کو بڑا گناہ فرمایا ہے۔ اس سے ابن حبان کی روایت کی تائید ہوتی ہے۔
Top