Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zumar : 59
بَلٰى قَدْ جَآءَتْكَ اٰیٰتِیْ فَكَذَّبْتَ بِهَا وَ اسْتَكْبَرْتَ وَ كُنْتَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
بَلٰى : ہاں قَدْ جَآءَتْكَ : تحقیق تیرے پاس آئیں اٰيٰتِيْ : میری آیات فَكَذَّبْتَ : تو تو نے جھٹلایا بِهَا : انہیں وَاسْتَكْبَرْتَ : اور تو نے تکبر کیا وَكُنْتَ : اور تو تھا مِنَ : سے الْكٰفِرِيْنَ : کافروں
(خدا فرمائے گا) کیوں نہیں میری آیتیں تیرے پاس پہنچ گئی ہیں مگر تو نے ان کو جھٹلایا اور شیخی میں آگیا اور تو کافر بن گیا
59۔ 62۔ مسند 2 ؎ امام احمد اور نسائی میں مرفوع اور موقوف روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ دوزخی لوگ دوزخ میں سے جنتیوں کو طرح طرح کے عیش میں جب دیکھیں گے اور جنت کی طرح طرح کی نعمتوں پر نظر ڈالیں گے اور فرشتوں سے سنیں گے کہ جنت میں ان دوزخیوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے مکان بنائے تھے اور ٹھکانہ مقرر کیا تھا لیکن دنیا میں ان لوگوں نے جنت میں جانے کے قابل کام نہیں کئے اس واسطے وہ ٹھکانے ان سے چھن کر دوسروں کو مل گئے اس وقت دوزخی لوگ طرح طرح کی حسرت کی باتیں کریں گے جن کا ذکر اوپر گزرا مثلاً کبھی کہیں گے کیا اچھا ہوتا کہ آج کو ہم لوگ بھی پرہیز گاروں میں ہوتے کبھی کہیں گے کہ کیا اچھا ہوتا جو ہم لوگوں کو پھر دیا میں جانے کی اجازت مل جاتی اور ہم اب کی دفعہ دنیا میں جا کر نیک کام کرتے اور پھر عقبے میں آن کر ان نیک کاموں کے اجر میں جنت پاتے ان دوزخیوں کی ان حسرت کی باتوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ یہ فرمائے گا کہ اب حسرت کا کیا موقع ہے دنیا میں رہنے کا موقع بھی تم کو ملا اللہ کے رسول اور اللہ کے رسول کی معرفت اللہ کا کلام تمہاری ہدایت کے لئے سب کچھ دنیا میں آیا لیکن تم لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے اور دنیا کے عیش و آرام کے غرور میں کلام الٰہی کو جھٹلاتے رہے۔ اس واسطے آج اپنے کئے کو تمہیں بھگتنا پڑا۔ صحیح بخاری 1 ؎ و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ ہر شخص کے لئے دوزخ اور جنت دونوں جگہ میں مکان بنائے گئے ہیں مرنے کے بعد جیسے جس کے عمل ہوں گے ویسا ہی اس کا ٹھکانہ ہوگا۔ صحیح بخاری 2 ؎ میں حضرت انس بن مالک کی بہت بڑی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑا کا حاصل یہ ہے کہ جس وقت مسلمان شخص منکر نکیر کے جواب میں پورا اترتا ہے تو اللہ کا فرشتہ دوزخ اور جنت دونوں جگہ کے ٹھکانے اس کو دکھا کر کہتا ہے کہ نیک عمل کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے تجھ کو دوزخ کے ٹھکانے سے محفوظ رکھا اور اس کی جگہ یہ جنت کا ٹھکانہ تجھ کو عنایت ہوا اور دوسری حدیث ابوہریرہ ؓ کی روایت سے صحیح بخاری 3 ؎ میں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر ایک شخص کے جنت میں جانے سے پہلے اس شخص کا دوزخ کا ٹھکانہ اسے دکھلا دیا جائے گا تاکہ جنت کے ٹھکانے کی قدر اور شکر گزاری اس شخص کے دل میں زیادہ ہوجائے۔ ابو دائود و مسند 4 ؎ امام احمد اور ابن ماجہ میں اور بھی اس قسم کی روایتیں ہیں جس طرح اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے یہ جان لیا تھا کہ دنیا میں پیدا ہو کر اتنے شخص اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے کام کریں گے اور جنت میں داخل ہوں گے اور اتنے شخص اللہ اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور دوزخ میں جائیں گے اسی طرح اللہ تعالیٰ کو یہ بات بھی معلوم ہے کہ اگرچہ یہ دوزخی لوگ دوزخ کے عذاب سے اکتا کر یہ کہہ رہے ہیں کہ دوبارہ ان کو دنیا میں بھیجا جائے تو یہ لوگ نیک کام کریں گے لیکن اگر ان کو دوبارہ دنیا میں بھیجا بھی جائے تو وہی نافرمانی کریں گے جو انہوں نے پہلی دفعہ کی ہے یہاں مختصر طور پر اللہ تعالیٰ نے ان دوزخیوں کی بات کا جواب دیا ہے سورة الانعام میں یہ جواب تفصیل سے دیا ہے اور فرمایا ہے کہ علم ازلی الٰہی کے موافق دوزخیوں کا یہ قول جھوٹا ہے بلکہ علم ازلی الٰہی میں یہ بات قرار پا چکی ہے کہ اگر دوبارہ دنیا پیدا ہو اور یہ لوگ دوبارہ دنیا میں بھیجے جائیں تو ان لوگوں سے وہی نافرمانی ظہور میں آئے گی جو پہلی دفعہ ظہور میں آئی اب آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا شر کی میں گرفتار جن لوگوں نے دنیا میں اللہ پر جھوٹ باندھا ہے کہ اپنی طرف سے اللہ کے جھوٹے شریک قرار دیئے ہیں۔ قیامت کے دن ایسے لوگوں کی وہ مذمت کی حالت دیکھنے کے قابل ہوگی کہ جب ان کے نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے جا کر ان کو دوزخی ٹھہرایا جائے گا تو ان کے چہروں پر سیاہی چھا جائے گی اسی طرح ان لوگوں کی حالت بھی دیکھنے کے قابل ہے جنہوں نے خدا کا خوب دل میں رکھا اور نیک کاموں میں تا بمقدور لگے رہے کہ ان کے نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیئے جا کر ان کے سروں پر موتیوں کے تاج رکھے جائیں گے اور ان کو جنت میں داخل ہونے اور اس دن کی ہر طرح کی برائی سے امن میں رہنے کی خوشخبری دی جائے گی جس خوشی سے ان کے چہروں پر رونق آجائے گی۔ ترمذی 1 ؎ صحیح ابن حبان وغیرہابوہریرہ ؓ سے جو روایتیں ہیں ان میں یہ نامہ اعمال کی تقسیم کا حال سے ہے۔ اگرچہ ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے۔ لیکن ابن حبان کی سند اچھی ہے اور مسند بزار میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی ایک روایت بھی اسی مضمون کی ہے جس کو بزار نے صحیح کہا ہے ان آیتوں میں نافرمان لوگوں کے چہروں پر سیاہی کے چھا جانے کا اور فرمانبرداروں کے ہر طرح کی برائی اور رنج اور غم سے امن میں رہنے کا جو ذکر ہے یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ آیتوں میں جس حالت کا ذکر ہے وہ حالت نامہ اعمال کے تقسیم کے وقت کی ہے ابو دائود 2 ؎ اور مستدرک حاکم میں حضرت عائشہ کی روایت سے قیامت کے تین مشکل مقاموں کا جو ذکر آیا ہے۔ ان میں ایک تو یہی نامہ اعمال کی تقسیم کا مقام ہے دوسرا عملوں کے تولے جانے کا اور تیسرا پل صراط پر گزرنے کا۔ حضرت عائشہ کی یہ حدیث حسن ؓ بصری کی روایت سے ہے۔ اگرچہ بعضے علما کو یہ شبہ ہے کہ حسن بصری کی ملاقات حضرت عائشہ سے ہوتی ہے یا نہیں لیکن صاحب جامع الاصول نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ حسن بصری کی ملاقات حضرت عائشہ سے ہوئی ہے ہاں اس بات میں شبہ ہے کہ حسن بصری نے کوئی حدیث حضرت عائشہ سے سنی ہے یا نہیں۔ اس شبہ کی صورت میں امام مسلم کی شرط پر یہ حدیث صحیح ہے چناچہ اس کی تفصیل ایک جگہ اس تفسیر میں گزر چکی ہے کہ امام مسلم کے نزدیک تابعی اور صحابی کا ایک زمانہ میں موجود ہونا صحت روایت کے لئے کافی ہے۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے سب مخلوقات کو پیدا کیا۔ اس لئے ہر طرح کا انتظام اسی کے اختیار میں ہے ان بت پرستوں کے بتوں کو نہ کسی چیز کے پیدا کرنے میں کچھ دخل ہے نہ کسی کے نفع میں ان کا کچھ اختیار چل سکتا ہے چناچہ مکہ کے قحط کے وقت ان مشرکوں کو اس کا حال اچھی طرح معلوم ہوچکا ہے۔ اس پر بھی یہ لوگ اللہ کی تعظیم اور عبادت میں غیروں کو شریک کرتے ہیں تو قیامت کے دن ان کو اپنی اس نادانی پر وہی حسرت اور افسوس کی باتیں کرنی پڑیں گی جس کا ذکر اوپر کی آیتوں میں گزرا۔ صحیح بخاری 3 ؎ و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود ؓ کی حدیث مکہ کے قحط کے باب میں اوپر گزر چکی ہے کہ قریش کی سرکشی جب بہت بڑھ گئی تو اللہ کے رسول ﷺ نے بددعا کی جس کے اثر سے مکہ میں سخت قحط پڑا۔ اس قحط کے زمانہ میں مشرکین مکہ نے اپنے بتوں سے بہت کچھ التجا کی مگر کچھ نہ ہوا آخر کار رسول ﷺ کی دعا سے وہ قحط رفع ہوا۔ (2 ؎ بحوالہ تفسیر ابن کثیر ص 60 ج 4۔ ) (1 ؎ تفسیر ہذا ص 4۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری باب ماجاء فی عذاب القبر ص 183 ج 1۔ ) (3 ؎ بخاری شریف باب صفۃ الجنۃ والنار ص 972 ج 2۔ ) (4 ؎ مشکوٰۃ شریف باب القدر ملاحظہ فرمایئے ) (1 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی العرض ص 78 ج 2۔ ) (2 ؎ مشکوٰۃ شریف فی الحساب والقصاص والمیزان ص 486) (3 ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص 52۔
Top