Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 7
وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ١ؕ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًاۙ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا مَالِ : کیسا ہے ھٰذَا الرَّسُوْلِ : یہ رسول يَاْكُلُ : وہ کھاتا ہے الطَّعَامَ : کھانا وَيَمْشِيْ : چلتا (پھرتا) ہے فِي : میں الْاَسْوَاقِ : بازار (جمع) لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْهِ : اس کے ساتھ مَلَكٌ : کوئی فرشتہ فَيَكُوْنَ : کہ ہوتا وہ مَعَهٗ : اس کے ساتھ نَذِيْرًا : ڈرانے والا
اور کہتے ہیں یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس پر کیوں نازل نہیں کیا گیا اس کے پاس کوئی فرشتہ کہ اسکے ساتھ ہدایت کرنے کو رہتا ؟
7۔ 9:۔ تفسیر ابن جریر 2 ؎ میں عکرمہ اور سعید بن جبیر کی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت میں جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے جب آنحضرت ﷺ پر تنگ دستی اور فقروفاقہ کی طعن کی اور کہا یہ کیسے رسول ہیں کہ ذرا ذرا سی چیز بازار میں خریدتے پھرتے ہیں ‘ اگر یہ اللہ کے سچے رسول ہوتے تو ضرور اللہ تعالیٰ ان کو خوشحالی سے رکھتا ‘ مشرکین کی اس طعن سے آنحضرت ﷺ کے دل پر کچھ اثر رنج کا پیدا ہوا ‘ اس رنج کا اثر دور کرنے کو اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرما دیا ‘ کہ شیطان نے ان لوگوں کو بہکا دیا ہے ‘ اس واسطے یہ بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں ‘ ورنہ یہ لوگ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر بتلاتے ہیں اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو نبی جانتے ہیں ‘ پھر یہ نہیں ثابت کرسکتے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فرشتے تھے ‘ کچھ کھاتے پیتے نہیں تھے یا غیب سے ان کو خزانہ ملا تھا ‘ یا کوئی فرشتہ ان کے ساتھ رہتا تھا ‘ جو ان کے نبی ہونے کی شہادت لوگوں سے ادا کرتا تھا ‘ یا انہوں نے بڑے بڑے محل اور باغ بنائے تھے ‘ علاوہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے اور انبیاء کا حال اہل کتاب سے بھی انہوں نے سنا ہے کہ کسی نبی میں یہ باتیں نہیں تھیں ‘ پھر سب انبیاء سے انوکھی باتیں جو یہ لوگ نبی آخر الزمان میں چاہتے ہیں ‘ یہ خواہش ان کی ایک معجزے کے طور کی خواہش نہیں ہے بلکہ ایک شرارت اور اغوائے شیطانی کی خواہش ہے ‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی طعن کا جواب مختصر طور پر دیا ہے اور آیتوں میں اس کی زیادہ تفصیل ہے جس کا ذکر ہر ایک موقعہ پر آوے گا ‘ اس شان نزول کی سند کو بعضے مفسروں نے ضعیف جو کہا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ اس شان نزول کی دو سندیں ہیں ایک جبیر اور ضحاک بن مزحک مزاحم کی سند ہے اور دوسرے سعید بن جبیر اور عکرمہ کی سند ہے ‘ پہلی سند ضعیف ہے ‘ اس ضعیف سند سے اس شان نزول کو واحدی وغیرہ نے روایت کیا 1 ؎ ہے ‘ دوسری سند قوی ہے جس کو ابن جریر نے اپنی تفسیر میں روایت کیا ہے ‘ وہی روایت اس تفسیر میں لی گئی ہے ‘ ان آیتوں میں مشرکین مکہ نے اللہ کے رسول ﷺ پر جو طعن کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جو اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہتے ہیں ان میں اور ہم میں کچھ فرق نہیں ہے ‘ ہماری طرح یہ بھی کھانا کھاتے ہیں ‘ بازاروں میں پھرتے ہیں ‘ اگر یہ سچے رسول ہیں تو آسمان سے کوئی فرشتہ ان کے ساتھ رہ کر ان کے رسول ہونے کی صداقت کیوں نہیں کرتا ‘ اور تنگدستی سے چھوٹ جانے کے لیے ان کو کوئی خزانہ اور عمدہ باغ غیب سے کیوں نہیں مل جاتا ‘ پھر فرمایا ان باتوں کے ساتھ مسلمانوں سے یہ بےانصاف لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم میں سے کسی کو ان رسول کا کہنا نہیں ماننا چاہیے تھا کیونکہ ان پر تو کسی نے جادو کردیا اس جادو کے اثر سے یہ اپنے آپ کو اللہ کا رسول بتلاتے ہیں ‘ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تم نے دیکھا کہ یہ مشرک تمہاری شان میں کیا کیا کہتے ہیں لیکن اے رسول اللہ کے اللہ تعالیٰ نے تمہاری معرفت ان کو جو نجات کا راستہ بتلایا ہے جب تک یہ لوگ اس کو نہ مانیں گے تو اسی طرح کی بہکی بہکی باتیں ان کو اچھی معلوم ہوں گی ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جنتی قرار پاچکے ہیں وہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ویسے ہی کام کرتے ہیں اور جو دوزخی ٹھہر چکے ہیں وہ ویسے ہی کام کرتے ہیں ‘ اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اہل مکہ میں سے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں جنتی قرار پا چکے ہیں وہ کچھ دنوں تک بہکی ہوئی باتیں کرتے رہے لیکن پھر آخر کو قرآن کی نصیحت سے راہ راست پر آگئے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں دوزخی ٹھہر چکے تھے وہ مرتے دم تک ایسی ہی بہکی ہوئی باتیں کرتے رہے جیسی باتوں کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ (2 ؎ ص 83 ا ج 8 ا طبع جدید ) (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 63 ج 5 بحوالہ اسباب النزول واحدی 190‘ 191 )
Top