Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 58
وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِهٖ١ؕ وَ كَفٰى بِهٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِیْرَا٤ۚۛۙ
وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ کر عَلَي الْحَيِّ : پر ہمیشہ زندہ رہنے والے الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ : جسے موت نہیں وَسَبِّحْ : اور پاکزگی بیان کر بِحَمْدِهٖ : اس کی تعریف کے ساتھ وَكَفٰى بِهٖ : اور کافی ہے وہ بِذُنُوْبِ : گناہوں سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے خَبِيْرَۨا : خبر رکھنے والا
اور اس (خدائے) زندہ پر بھروسہ رکھو جو (کبھی) نہیں مرے گا اور اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح ہی کرتے رہو اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خبر رکھنے کو کافی ہے
58۔ 60:۔ توکل کے معنی اللہ پر بھروسہ رکھنے کے ہیں ‘ وعظ ونصیحت پر اجرت لینے کی مناہی فرما کر ان آیتوں میں فرمایا اے رسول اللہ کے تم تو اپنے سب کاموں کا بھروسہ اللہ پر رکھو کہ اس کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے اور اللہ کے انتظام میں ہر کام کا وقت مقرر ہے ‘ اس واسطے کسی کام کا بھروسہ اللہ کی ذات پر رکھنے کے بعد اگر اس کام میں کچھ دیر ہو تو وقت مقررہ تک صبر کرنا چاہیے تاکہ اللہ پر بھروسہ رکھنے کا اور صبر کا دونوں کا اجر ملے ‘ صحیح بخاری وغیرہ کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ پر بھروسہ رکھنے والے لوگ قیامت کے دن بلاحساب جنت میں جاویں گے ‘ بخاری ومسلم میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت 2 ؎ ہے کہ صبر سے بہتر کوئی چیز دنیا میں انسان کو نہیں دی گئی ‘ مطلب یہ ہے کہ جب تک آدمی کے مزاج میں صبر نہ ہو تو نہ آدمی گناہ سے بچنے کی برداشت کرسکتا ہے ‘ نہ نیک کاموں کے کرنے کی تکلیف گوارا کرسکتا ہے کہ مثلا جاڑہ میں وضو کرے یا گرمی میں روزہ رکھے ان حدیثوں سے توکل اور صبر کی فضیلت اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے اور یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ توکل کے لیے صبر لازمی ہے پھر فرمایا اے رسول اللہ کے اللہ تعالیٰ نے تم کو خاتم الانبیاء بنانے کی نعمت جو دی ہے اس کے شکریہ میں تم کثرت سے اللہ کی عبادت کیا کرو صحیح بخاری ومسلم میں مغیرۃ بن شعبہ سے روایت 3 ؎ ہے کہ تہجد کی نماز میں اللہ کے رسول ﷺ یہاں تک کھڑے ہوتے تھے کہ آپ کے پیروں پر ورم آجاتا تھا ‘ یہ حالات دیکھ کر لوگوں نے آپ سے کہا کہ حضرت اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دیئے ہیں ‘ پھر آپ عبادت میں اس قدر کوشش کیوں کرتے ہیں اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ادا نہ کروں ‘ نبوت کے شکریہ میں کثرت سے عبادت کرنے کا جو حکم ہے اس کی تعمیل میں اللہ کے رسول ﷺ جس قدر کوشش کرتے تھے اس کی تفسیر اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ؎ ہے کہ لوگوں کے رات کے عملوں کا اعمال نامہ رات سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ میں پیش ہوتا ہے ‘ آگے یہ جو فرمایا کہ لوگوں کے سب گناہوں کی اللہ کو خبر ہے ‘ اس کی تفسیر اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے کوئی چیز باہر نہیں ہے مگر قیامت کے دن لوگوں کو قائل کرنے اور ہر شخص کو اس کے عمل یاد کرنے کے لیے ہر روز صبح وشام لوگوں کے اعمال نامے اللہ تعالیٰ کے روبرو میں پیش ہوجاتے ہیں قیامت کے دن ان ہی اعمال ناموں کے موافق جزا وسزا کا فیصلہ ہوجاوے گا ‘ آگے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں آسمان و زمین سب کچھ پیدا کیا ‘ اس واسطے آسمان و زمین میں کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہوسکتی ‘ اے رسول اللہ کے تم کو جو بات معلوم نہ ہو وہ اللہ ہی سے پوچھو کہ تمام مخلوقات اس کی پیدا کی ہوئی ہے اور اسی کو تمام مخلوقات کا پورا حال معلوم ہے اگر اللہ چاہتا تو ایک لمحہ میں آسمان و زمین سب کچھ پیدا کردیتا لیکن چھ دن کی مدت میں آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں یہ حکمت ہے کہ انسان اس عادت الٰہی کو سیکھ کر ہر کام سہولت سے کرے کسی کام میں عادت سے بڑھ کر جلدی نہ کرے کہ اس طرح کی جلدی شیطان کی عادت میں داخل ہے چناچہ مسندابی یعلی میں انس بن مالک کی صحیح روایت 1 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہر کام میں سہولت عادت الٰہی ہے اور حد سے زیادہ جلدی عادت شیطانی ہے ‘ استواء علی العرش اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے اور اس طرح کی صفات کی آیتیں متشابہات کہلاتی ہیں ‘ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے کہ اس طرح کی آیتوں پر ایمان لانا اور ان کی تفصیلی کیفیت کو علم الٰہی پر منحصر رکھنا ‘ صحابہ ؓ اور تابعین (رح) کا طریقہ ہے ‘ اوپر اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کا ذکر تھا کہ اس نے اپنی مہربانی سے انسان کو انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا اور یہ بھی ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں اور نعمتوں کا شکریہ یہی ہے کہ خالص دل سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے آخر آیت میں فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کی صفت کے سبب سے اس کا نام رحمان بھی ہے لیکن ان مشرکین مکہ کے روبرو جب اللہ تعالیٰ کا یہ نام لیا جاتا ہے تو یہ لوگ بہت بدکتے ہیں حالانکہ یہ مشرک لوگ اہل کتاب سے ملتے رہتے ہیں جس سے ان کو یہ معلوم ہوچکا ہے کہ تورات میں اللہ تعالیٰ کا یہ نام موجود ہے ‘ اس آیت کے پڑھنے والے اور سننے والے دونوں کو یہاں سجدہ کرنا چاہیے۔ (2 ؎ مشکوٰۃ ص 162 باب من لاتحل لہ المسـٔلۃ ومن تحل لہ ) (3 ؎ مشکوٰۃ باب التحریض علیٰ قیام اللیل۔ ) (؎ بحوالہ مشکوٰۃ ص 21۔ ) (1 ؎ الترغیب والترہیب ص 418 جلد 3 کتاب الآداب۔ )
Top