Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 35
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنَا مَعَهٗۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ وَزِیْرًاۚۖ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور البتہ ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا مَعَهٗٓ : اس کے ساتھ اَخَاهُ : اس کا بھائی هٰرُوْنَ : ہارون وَزِيْرًا : وزیر (معاون)
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے بھائی ہارون کو مددگار بنا کر ان کے ساتھ کیا
35۔ 37:۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری کی حدیث 2 ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں سب انبیاء سے اللہ تعالیٰ کے وحدانیت کے سکھانے کا اور سب مخلوقات سے اس پر قائم رہنے کا عہد لیا ہے ‘ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبداللہ بن عباس ؓ کی یہ حدیث بھی گزر چکی ہے کہ پہلے پہلے بت پرستی قوم نوح سے دنیا میں شروع ہوئی ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ قوم نوح ( علیہ السلام) سے لے کر قوم فرعون تک کسی قوم نے اس عہد کے موافق عمل نہیں کیا جب سزا میں وہ سب قومیں طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہوگئیں ‘ جن میں سب سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم ہے اور آخری قوم فرعون کی ‘ ان آیتوں میں ان ہی دونوں کی ہلاکت کا ذکر ہے ‘ ہاں حلال و حرام کے احکام ہر زمانہ کی ضرورت کے موافق بدلتے رہے ہیں ان آیتوں میں یہ جو فرمایا کہ قوم نوح نے سب رسولوں کو جھٹلایا ‘ اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس قوم نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو جھٹلایا ‘ اس نے سب رسولوں کو جھٹلایا ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے کسی رسول کا دین خالی نہیں ہے ‘ قریب کے زمانہ کی بات زیادہ مشہور ہوتی ہے اس لیے قوم فرعون کے ذکر سے آیتوں کو شروع کیا ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے فرعون کی قوم اور نوح (علیہ السلام) کی قوم اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے کے وبال میں ڈوب کر ہلاک ہوگئی اگر قریش بھی تمہارے جھٹلانے سے باز نہ آئے تو ان پر بھی کوئی آفت ضرور آوے گی ‘ اللہ سچا ہے ‘ اللہ کا کلام سچا ہے ‘ بدر کی لڑائی کے وقت اس وعدہ کا جو ظہور ہوا اس کا قصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے کئی جگہ گذر چکا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس لڑائی میں مشرکین مکہ میں کے بڑے بڑے اللہ کے رسول کے جھٹلانے والے دنیا میں بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے ‘ جس عذاب کے جتلانے کے لیے اللہ کے رسول نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچا پالیا۔ (2 ؎ بحوالہ مشکوٰۃ ص 509 باب بدء الخلق و ذکر الانبیاء )
Top