Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 22
یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰٓئِكَةَ لَا بُشْرٰى یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ وَ یَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا
يَوْمَ : جس دن يَرَوْنَ : وہ دیکھیں گے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے لَا بُشْرٰى : نہیں خوشخبری يَوْمَئِذٍ : اس دن لِّلْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں کے لیے وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہیں گے حِجْرًا : کوئی آڑ ہو مَّحْجُوْرًا : روکی ہوئی
جس دن یہ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی اور کہیں گے (خدا کرے تم) روک لیے (اور) بند کردیے جاؤ
22:۔ مشرک لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے فرشتے آن کر آنحضرت ﷺ کی نبوت کی شہادت ادا کریں تو ہم کو ان کی نبوت کا یقین آسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے یہ اس کا جواب دیا ہے ‘ حدیث شریف میں اس جواب کی تفسیر آنحضرت ﷺ نے جو فرمائی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں دو موقع اللہ تعالیٰ نے ایسے ٹھہرائے ہیں جن میں فرشتے انسانوں کے روبرو ان کی آنکھوں کے سامنے آویں گے ایک موقع تو قبض روح کا ہے کہ آدمی کی جان نکالنے کو فرشتے اس کے روبرو آتے ہیں دوسرا موقع حشر کا ہے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو فرشتے ان کو حساب و کتاب کے لیے میدان محشر میں لے جاویں گے اور یہ دونوں موقع بےدین لوگوں پر باری ہیں چناچہ مسند امام احمد اور ابوداود کی براء بن العازب 2 ؎ کی صحیح روایت کے حوالہ سے کئی جگہ اوپر گزر چکا ہے کہ بےدین لوگوں کے قبض روح کے وقت ڈراؤنی صورت بنا کر فرشتے ایسے لوگوں کے سامنے آتے ہیں اور روح کو جسم سے الگ ہونے کے بعد طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر سناتے ہیں ‘ اس خبر کو سن کر روح جسم میں جگہ جگہ چھپتی ہے اور فرشتے ان لوگوں کے منہ اور پیٹھ پر طرح طرح کی مار مارتے ہیں اور بڑی سختی سے جان نکالتے ہیں اور حشر کا ذکر صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک کی روایت 3 ؎ سے آیا ہے کہ بےدین لوگوں کو منہ کے بل بری طرح سے کھینچتے ہوئے میدان محشر میں فرشتے لے جاویں گے ‘ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ اب تو نخوت سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب تک فرشتے ہمارے سامنے نہ آویں گے ہم ہرگز ایمان نہ لاویں گے لیکن جب فرشتوں کے سامنے آنے کا وقت آوے گا تو ان کو اس نخوت کی قدر کھل جاوے گی کہ فرشتے قبض روح کے اور حشر کے وقت ایسے لوگوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دے کر یہ کہیں گے کہ دنیا میں تم لوگ بہت عیش و آرام میں رہے اب تم کو ایسی سختی بھگتنی پڑے گی کہ جس میں کسی طرح کی راحت کی کوئی خبر بھی تمہارے کانوں تک نہ پہنچنے گی ‘ بڑی سختی پیش آنے والی ہو تو عرب کے محاوے میں ایسے موقع پر حِجْرًا مَّحْجُوْرًا بولتے ہیں اس میں سلف کا ابن جریر (رح) نے اپنی تفسیر میں اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ یہ فرشتوں کا قول ہے اور مطلب اس کا وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا جو مفسر یہ کہتے ہیں کہ یہ نافرمان لوگوں کا قول ہے وہ اس قول کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ فرشتوں کی سختی کے وقت اپنے اس قول سے کسی آڑ یا اوٹ میں چھپ جانے کی تمنا ظاہر کریں گے ‘ ترجمہ میں یہی قول لیا ہے مگر حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ عرب کی بول چال میں حجرا محجورا کے معنی آڑ یا اوٹ کے کہیں پائے نہیں جاتے اگرچہ فارسی اور اردو کے لفظی ترجمہ میں پہلا قول لیا گیا ہے اس اعتراض کے خیال سے پہلا قول لیا ہے لیکن آگے بیٹے اور کھاری دو دریاؤں کے نہ ملنے کے ذکر میں حِجْرًا مَّحْجُوْرًا کا لفظ آڑ اور اوٹ کے معنوں میں آیا ہے اس واسطے یہ معنی بھی صحیح ہیں۔ (2 ؎ مشکوٰۃ ص 142 باب مایقال عند من حضرہ الموت ) (3 ؎ مشکوٰۃ باب الحشر۔ )
Top