Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 15
قُلْ اَذٰلِكَ خَیْرٌ اَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ١ؕ كَانَتْ لَهُمْ جَزَآءً وَّ مَصِیْرًا
قُلْ : فرما دیں اَذٰلِكَ : کیا یہ خَيْرٌ : بہتر اَمْ : یا جَنَّةُ الْخُلْدِ : ہمیشگی کے باغ الَّتِيْ : جو۔ جس وُعِدَ : وعدہ کیا گیا الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار (جمع) كَانَتْ : وہ ہے لَهُمْ : ان کے لیے جَزَآءً : جزا (بدلہ) وَّمَصِيْرًا : لوٹ کر جانے کی جگہ
پوچھو کہ یہ بہتر ہے یا بہشت جاودانی جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ ہے ؟ یہ ان (کے عملوں) کا بدلہ اور رہنے کا ٹھکانا ہوگا
15۔ 16:۔ اوپر منکرین قیامت کا اور ان کے لیے دوزخ کے تیار کئے جانے کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا ‘ اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ ان کے انکار سے اللہ تعالیٰ کا انتظام تو پلٹنے والا نہیں ‘ اب ان لوگوں کو یہ بتلانا چاہیے کہ انتظام الٰہی کے موافق وقت مقررہ پر جب قیامت قائم ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے موافق ان کو اس دوزخ کی آگ میں جھونک دیا جاوے گا جو ایسے لوگوں کے لیے اس طرح دھکائی گئی ہے کہ اس کی تیزی دنیا کی آگ سے انہتر حصہ زیادہ ہے تو یہ دوزخ کی آگ بہتر ہے یا پرہیز گار لوگوں سے جس جنت کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے وہ بہتر ہے ‘ صحیح بخاری 1 ؎ ومسلم سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ دوزخ کی آگ کی تیزی دنیا کی آگ سے انہتر حصے زیادہ ہے ‘ پھر فرمایا یہ جنت وہ ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی معرفت پرہیز گار لوگوں سے کیا ہے جس وعدہ کے پورے ہونے کی دعا پرہیز گار لوگ مانگتے رہتے ہیں ‘ صحیح بخاری 2 ؎ ومسلم میں عبد اللہ بن عمر ؓ سے اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ اور ابو سعید خدری ؓ سے جو روایتیں 3 ؎ ہیں ان میں جنت کی نعمتوں کے فنا نہ ہونے کا اور جنتیوں کے ہمیشہ جنت کے عیش و آرام میں رہنے کا ذکر تفصیل سے ہے ‘ نیک کام میں لگے رہنے اور برے کام سے بچنے کو پرہیزگاری کہتے ہیں ‘ صحیح 4 ؎ بخاری کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ جس شخص کے مزاج میں پرہیزگاری زیادہ ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی عزت زیادہ ہے ‘ آیتوں میں یہ جو ذکر ہے کہ پرہیزگار لوگوں سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پرہیزگاری ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے سبب سے آدمی دوزخ کے عذاب کی ذلت سے بچ کر جنت میں داخل ہونے کی عزت حاصل کرسکتا ہے اور اس کے سو درجے پیدا کئے ہیں ‘ چناچہ صحیح بخاری ومسلم اور ترمذی کی عبادہ بن صامت کی حدیث 5 ؎ میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ باب صفۃ النا رواہلہا ) (2 ؎ الترغیب والترہیب ص 564 ج 4 ) (3 ؎ مشکوٰۃ ص 496 باب صفۃ الجنۃ واہلہا ) (4 ؎ مشکوٰۃ ص 417 باب المفاخرۃ والعصبیۃ ) (5 ؎ مشکوٰۃ ص 496 باب صنقہ الجنۃ واہلہا۔ )
Top