Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 14
لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّ ادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا
لَا تَدْعُوا : تم نہ پکارو الْيَوْمَ : آج ثُبُوْرًا : موت کو وَّاحِدًا : ایک وَّادْعُوْا : بلکہ پکارو ثُبُوْرًا : موتیں كَثِيْرًا : بہت سی
آج ایک ہی موت کو نہ پکارو بہت سی موتوں کو پکارو
14:۔ قیامت کے دن اہل دوزخ پر طرح طرح کی سختیاں گریں گی ‘ ان سختیوں سے یہ بھی ایک سختی ہے ‘ جس کا ذکر اس آیت میں ہے ‘ صحیح سند سے بعث ونشور بیہقی میں انس بن مالک کی روایت 3 ؎ ہے جو حدیث ہے ‘ اس میں اس آیت کی تفسیر جو آئی ہے ‘ حاصل اس کا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ‘ دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے شیطان کو کھڑا کیا جائے گا اور اس کے تمام شیاطین اور سارے اس کے پیرو اس کے پیچھے کھڑے کیے جائیں گے اور ان سب سے پہلے شیطان کو ایک آگ کا لباس پہنایا جاوے گا اور پھر سب اس کے ساتھیوں کو بھی آگ کا لباس پہنایا جاوے گا ‘ اس وقت شیطان اور اس کے ساتھی اپنی ہلاکت کی حالت پر افسوس کریں گے اور کہیں گے کہ ہائے افسوس ہم ہلاک ہوگئے ‘ ان کے جواب میں خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ ایک ہلاکت کو کیا جھیلتے ہو ‘ ابھی تو تمہیں طرح طرح کی ہلاکت بھگتنی اور طرح طرح کے عذاب دوزخ کی مصیبت جھیلنی پڑے گی ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ دوزخ کے عذاب کا جو کچھ حال مجھ کو معلوم ہے اگر وہ حال پورے طور پر لوگوں کو معلوم ہوجاوے تو لوگ دنیا کے سب کام چھوڑ کر ہر وقت روتے رہیں ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ آگ کا لباس پہنائے جانے کے بعد دوزخ کے طرح طرح کے عذاب کی مصیبت جو شیطان اور اس کے ساتھیوں کو بھگتنی پڑے گی وہ بیان سے باہر ہے کیونکہ دنیا کا انتظام قائم رہنے کی غرض سے اس مصیبت کا حال اللہ کے رسول ﷺ نے امت کے لوگوں کو نہیں جتلایا۔ (3 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 64 ج 5 و تفسیر ابن کثیر ص 311 بحوالہ مسند امام احمد )
Top