Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے
(8 ۔ 20): 8۔ 20۔ شروع سورة سے یہاں تک چار آیتوں میں خالص مومنوں کا ذکر تھا۔ اور پھر دو آیتوں میں کافروں کا اب ان تیرہ آیتوں میں منافقوں کا ذکر ہے۔ منافق وہ ہے جو زبان سے اچھی بات کہے اور دل میں اس کے بدی ہو۔ منافقوں کا ذکر قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ کے مدینہ منورہ میں آنے کے بعد شروع ہوا ہے۔ ہجرت سے پہلے جس قدر حصہ قرآن شریف کا مکہ میں اترا ہے اس میں منافقوں کا ذکر اس واسطے نہیں ہے کہ مکہ میں یا کھلم کھلا مسلمان تھے یا کافر۔ منافق لوگ وہاں نہیں تھے کیونکہ مکہ میں کفار کا غلبہ تھا جس کے سبب سے آنحضرت ﷺ کو مکہ سے ہجرت کا حکم ہوا۔ اس اپنے غلبہ کے سبب سے وہاں کے کافر اپنی اصلی حالت پر تھے۔ جب آنحضرت ﷺ مدینہ میں ہجرت کر کے آئے اور اہل اسلام کی جماعت اور قوت بڑھی تو اہل مدینہ میں سے جن کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے اسلام لکھا تھا وہ تو خالص مسلمان ہوگئے لیکن ایک جماعت اہل مدینہ کی ان ان یہود سے میل جول رکھتی تھی جو مدینہ کے گرد نواح میں رہتے تھے ان یہود کے بہکانے سے یہ اہل مدینہ میں کے کچھ لوگ مسلمانوں کی قوت اور شوکت دیکھ کر جب مسلمانوں سے ملتے تو اپنا جان و مال بچانے کے لئے مسلمانوں کے رو برو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے اور جب اپنے ساتھیوں سے ملتے تو کہتے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم تو دل لگی کے طور پر اپنے اوپر اسلام ظاہر کردیتے ہیں۔ انہیں لوگوں کی دغا بازی ظاہر کرنے کو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائیں اور فرما دیا کہ یہ لوگ دغاباز ہیں اور ان کی دغا بازی انہیں کی عقبیٰ خراب کرے گی اور مسلمانوں کو یہ کیا کم عقل بتاتے ہیں انہیں کی عقلوں میں فتور ہے کہ اپنی عقبیٰ خراب کر رہے اور مسلمانوں کی شوکت کی ترقی روز بروز دیکھ کر ان کے دلوں میں دورنگی اور نفاق کا مرض جو روزبروز بڑھتا جاتا ہے اور انہیں کا آخر کار دوزخ دکھاوے گا۔ اور کسی کو اس سے کچھ نہیں بگڑ سکتا۔ اور یہ لوگ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم تو یہود سے اس غرض سے ملتے ہیں کہ آپس میں ایک طرح کا میل ملاپ رہے۔ کسی فساد کی نیت سے ہم یہ کام نہیں کرتے۔ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ دین کے مخالف لوگوں سے میل جول رکھنا ہی ایسی بات ہے کہ اس سے ایک نہ ایک دن ضرور کوئی فساد کھڑا ہوجاوے گا غرض یہ لوگ خرابی عقبیٰ کا جو سودا کر رہے ہیں اس تجارت میں ان کو سراپا نقصان ہے نفع کچھ نہیں۔ پھر ان لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ نے دو مثالیں بیان فرمائیں۔ صحابہ کی ایک جماعت نے فرمایا کہ پہلی مثال منافقوں کے حال سے اس طرح مطابق ہے کہ آنحضرت ﷺ کے مدینہ آنے کے وقت پہلے پہل ان لوگوں نے کچھ نور ایمانی کما لیا تھا پھر نفاق کے سبب سے اسی کفر کی تاریکی میں یہ لوگ پھنس گئے۔ دوسری مثال کی مطابقت صحابہ نے منافقوں کے حال سے اس طرح بیان کی ہے کہ بجلی کی آناً فاناً چمک کی طرح مسلمانوں کے دباؤ سے کبھی ان لوگوں میں ایمان کی عارضی جھلک آجاتی ہے اور جس طرح کڑک کی آواز کے ڈر سے کوئی شخص کانوں میں انگلیاں دے کر اپنا ڈر رفع کرلیتا ہے اسی طرح اس عارضی ایمانی جھلک سے مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کی جان ومال کی خیر ہوجاتی ہے لیکن اس عارضی ایمانی سے کیا ہوتا ہے۔ اس کے دلوں پر تو وہی کفر و نفاق کی گھٹا چھائی ہوئی ہے جس کے سبب سے ان کا انجام برا اور عاقبت برباد ہے۔ نفاق دو طرح کا ہے ایک تو اعتقادی جیسے اسلام کے زور کے وقت ان لوگوں میں تھا۔ دوسرا عملی۔ صحیح حدیثوں میں اس کی نشانیاں جھوٹ بولنا۔ خیانت وعدہ خلافی گالیاں بکنا۔ عہد شکنی آئی ہیں 1۔ اخیر کو اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کو یہ بھی جتلا دیا کہ اپنے جن اعضا کے بھروسہ پر یہ منافق چلاکیاں اور دغا بازیاں کرتے ہیں اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ چاہے تو ان کے اعضا کو بالکل بیکار کر دیوے۔ پھر یہ اپنے گھروں میں بالکل اپاہج بن کر بیٹھ جاویں۔ اور ان کی چالاکیاں اور دغا بازیاں ان کے آگے آجاویں۔ ترمذی میں عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا رعد ایک فرشتہ ہے جو بادلوں کو ہانکتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہے۔ بادلوں کے ہانکنے میں اس کوڑے کا کوئی تس جو جھڑ جاتا ہے وہ بجلی ہے اور کڑک اس فرشتے کی آواز ہے جو بادلوں کو ہانکنے کے وقت اس کے منہ سے نکلتی ہے۔ 2 اس حدیث کی سندیں اگرچہ کچھ کلام ہے لیکن اکثر علماء مفسرین نے رعد و کڑک و بجلی کی تفسیر اسی حدیث کے موافق کی ہے۔
Top