Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 188
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بالْبَاطِلِ : ناحق وَتُدْلُوْا : اور (نہ) پہنچاؤ بِهَآ : اس سے اِلَى الْحُكَّامِ : حاکموں تک لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھاؤ فَرِيْقًا : کوئی حصہ مِّنْ : سے اَمْوَالِ : مال النَّاسِ : لوگ بِالْاِثْمِ : گناہ سے وَاَنْتُمْ : اور تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ اس کو (رشوتاً ) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر نہ کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو
اوپر کی آیت میں کھانے پینے کا ذکر آیا تھا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قید لگا دی کہ اسی مال کے کھانے پینے کی اجازت تم کو دی گئی ہے جو حق طور پر ہو اور شریعت نے اس کا کھانا پینا اور برتنا تمہارے لئے جائز رکھا ہو اور آپس میں ایک شخص دوسرے کا مال آپس کی خیانت یا حاکموں سے خلاف واقع کرا کے ہرگز نہ کھائے آپس کی خیانت کی صورتیں یہ ہیں کہ مثلاً کسی کی امانت لے کر مکر جائے یا جوئے میں کسی کا مال جیت لیوے یا حاکم ہو کر کسی محکوم سے رشوت لے لیوے اور حاکموں سے خلاف واقع فیصلہ کرانے کی صورتیں یہ ہیں کہ جھوٹی قسم یا جھوٹی گواہی دے کر یا دلا کر یا چرب زبان ی سے ناحق بات کو حق جتلا کر فیصلہ کرایا جائے۔ صحیحین میں حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں بھی بشر ہوں بشریت کے سبب سے کسی شخص کی چرب زبانی پر اس شخص کو کچھ مال یا کوئی چیز دلانے کا فیصلہ اگر میں کرو وں گا تو یہ زیادہ ہے کہ وہ مال اور وہ چیز آخرت میں اس شخص کے لئے آگ کا ٹکڑا ہے۔ 3۔ اس حدیث اور اس آیت کے مطلب سے معلوم ہوا کہ حاکم کا ظاہر کا فیصلہ باطن کے ناحق کو حق نہیں کرتا۔
Top