Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 172
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ : سے طَيِّبٰتِ : پاک مَا رَزَقْنٰكُمْ : جو ہم نے تم کو دیا وَاشْكُرُوْا : اور شکر کرو لِلّٰهِ : اللہ کا اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو اِيَّاهُ : صرف اسکی تَعْبُدُوْنَ : بندگی کرتے ہو
اے اہل ایمان جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ اور اگر خدا ہی کے بندے ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا کرو
اکل حلال دنیا میں ہر مسلمان کے لئے بڑی چیز ہے کوئی عبادت اور کوئی دعا بغیر غذائے حلال کے قبول نہیں ہوتی مسند امام احمد بن جنبل اور مسلم اور ترمذی میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے بدوں پاک چیز کے اور کوئی چیز اللہ کی بار گاہ میں قبول نہیں ہوتی 1۔ بعض لوگ رات دن یا اللہ یا اللہ کہہ کر گڑگڑا کر طرح طرح کی دعائیں اللہ کی جناب میں کرتے ہیں اور طرح طرح کی حاجتوں کا روا ہونا اس کی بارگاہ سے چاہتے ہیں اور جب ان کی حاجت روا نہیں ہوتی تو مایوس ہو کر دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا کرتے ہیں کہ ہماری دعا قبول کیوں نہیں ہوتی حالانکہ ان کی قوت بسری رزق حلال سے جب تک نہ ہو ان کی دعا کیا عبادت بھی اللہ کی بارگاہ میں ہرگز قبول نہ ہوگی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنے رسولوں کو { قَدْ اَفْلَحَ الْمُوْمِنُوْنَ } کی آیت یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات (23: 51) میں غذائے حلال کی تاکید اور حکم فرمایا ہے اسی طرح اس آیت میں عام مسلمان لوگوں کو اس کی تاکید اور اس کا حکم فرمایا ہے۔ تاکہ غذائے حلال سے رسولوں کے کلام میں تو یہ اثر پیدا ہو کہ امت کو جو کچھ وہ نصیحت کریں وہ باتاثیر ہو اور مسلمان لوگوں کے کلام میں غذائے حلال سے یہ اثر بطور دعا یا بطور عبادت کے جو بات ان کے منہ سے نکلے وہ مقبول اور رائیگاں نہ جائے۔
Top