Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 155
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ : اور ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں بِشَيْءٍ : کچھ مِّنَ : سے الْخَوْفِ : خوف وَالْجُوْعِ : اور بھوک وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَنْفُسِ : اور جان (جمع) وَالثَّمَرٰتِ : اور پھل (جمع) وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں آپ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے تو صبر کرنے والوں کو (خدا کی خوشنودی کی) بشارت سنادو
(155 ۔ 157) ۔ اوپر کی آیت میں مصیبت کے وقت صبر اور نماز سے مدد لینے کا ذکر فرما کر اسی کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں جو اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے جو شخص مصیبت کے وقت صبر کرے گا اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق اس کو پورا جر دے گا سورة الزمر میں آئے گا۔{ اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِحِسَابٍ } (39: 10) جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر نیکی کا اجر دس درجہ سے لے کر سات سو تک ہے۔ مگر صبر جیسی مشکل چیز ہے اسی طرح اس کا ثواب بھی اندازہ سے باہر ہے صحیح ابن حبان وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ سے بسند معتبر روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عقبیٰ میں بڑادرجہ دینا چاہتا ہے۔ لیکن ان بندوں کے اعمال اس درجہ کے قابل نہیں ہوتے اس لئے ان کو بعض مصیبتوں سے آزماتا ہے اور جب وہ بندے ان مصیبتوں کے وقت صابر رہتے ہیں تو ان کے صبر کے اجر میں اللہ تعالیٰ ان اپنے بندوں کو عقبیٰ کے اس بڑے درجہ کے قابل کردیتا ہے 1۔ اسی طرح مصیبت کے وقت صبر کرنے سے گناہوں کے معاف ہونے کی حدیثیں بہت سی ہیں 2۔ حاصل یہ ہے کہ دنیا اکثر اچھے لوگ مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تاکہ مصیبت کے وقت صبر کرنے سے ان کا درجہ بڑھے ان کے گناہ معاف ہوں۔ اس لئے مسلمان آدمی کو مصیبت سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ ایسے وقت پر صبر اور نماز سے مدد لینی چاہیے۔ مال کا نقصان یہ ہے کہ مثلاً کسی تجارت میں گھاٹا آجاوے یا کوئی چوری ہوجاوے جان کا نقصان رشتہ داروں یا دوستوں کا مر جاناخوف سے مراد دشمنوں کا خوف ہے بھوک سے مراد محتاجی و قحط میوہ کا نقصان باغ کے پیڑوں میں پھل کا نہ آنا یا کم آنا یا اولاد کی موت کیونکہ اولاد کو بھی پھل کہتے ہیں۔ چناچہ ترمذی وغیرہ میں ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب کسی مسلمان شخص کی اولاد کا انتقال ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ملک الموت سے فرماتا ہے کہ جس وقت تو نے میرے بندے کے دل کے پھل کو اس سے چھین لیا تو اس میرے بندے نے کیا کہا فرشتہ جواب دیتا ہے یا اللہ اس وقت تیرے بندے نے { اِنَّا لِلّٰہِ } پڑھی اور تیری تعریف کی نہ کچھ بےصبر کی نہ کوئی ناجائز کلمہ منہ سے نکالا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے اچھا ایسے بندہ کے لئے جنت میں ایک گھر تیار کرو اور اس کا نام اللہ کی تعریف کا گھر رکھو ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے 3۔ جو قابل ِاعتبار ہے اور مسند امام احمد کی روایت سے ترمذی کی روایت کو ایک طرح کی تقویت بھی حاصل ہوگی ہے۔ غرض صابروں کو بڑا اجر ملنے والا ہے۔ اسی واسطے آخر آیت میں فرمایا کہ ان لوگوں پر اللہ کی رحمت ہے اور انہیں لوگوں نے عقبیٰ کی نجات کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔
Top