Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 133
اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ١ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِیْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْ١ؕ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآئِكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۖۚ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ
اَمْ كُنْتُمْ : کیا تم تھے شُهَدَآءَ : موجود اِذْ حَضَرَ : جب آئی يَعْقُوْبَ : یعقوب الْمَوْتُ : موت اِذْ : جب قَالَ : اس نے کہا لِبَنِيهِ : اپنے بیٹوں کو مَا : تم کس کی تَعْبُدُوْنَ : عبادت کرو گے مِنْ بَعْدِیْ : میرے بعد قَالُوْا : انہوں نے کہا نَعْبُدُ : ہم عبادت کریں گے اِلٰهَکَ : تیرے معبود کی وَاِلٰهَ : اور معبود اٰبَائِکَ : تیرے اٰبا اِبْرَاهِيْمَ : ابراہیم وَاِسْمَاعِيْلَ : اور اسماعیل وَاِسْحَاقَ : اور اسحٰق اِلَٰهًا : معبود وَاحِدًا : واحد وَنَحْنُ : اور ہم لَهٗ : اسی کے مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار ہیں
بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے ؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبود یکتا ہے اور ہم اسی کے حکم بردار ہیں
(133 ۔ 134) ۔ اوپر کی آیت میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی وصیت کا ذکر ہے تھا اور اس آیت میں حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنے آخری وقت پر اپنی اولاد سے توحید پر رہنے کا اقرار جو بطور وصیت کے لیا تھا اور اس اقرار میں حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کے چچا حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے اسی توحید پر قائم رہنے کا ذکر ہے جس سے اولاد یعقوب ( علیہ السلام) اور اولاد اسماعیل ( علیہ السلام) دونوں کو ذکر کرنا مقصود ہے کہ ان دونوں میں سے ایک بھی اپنے بڑوں پر نہیں ہے اور جب یہ لوگ اپنے بڑوں کے طریقہ پر نہ ہوں قیامت کے دن بڑوں کے نیک عمل ان کے کام نہیں آسکتے اس دن تو ہر ایک کو اپنے اپنے عمل کے جدا جدا جواب دہی کرنی پڑے گی۔ چناچہ معاذ بن جبل سے ترمذی وغیرہ میں معتر سند سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ چار باتوں کی جواب دہی کے لئے ہر ایک شخص کو قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے رو برو ضرور کھڑا رہنا پڑے گا ایک تو یہ کہ نیک عمل دنیا میں کیا کیا دوسرے یہ کہ عمر کن کن کاموں میں صرف کی۔ تیسرے جوانی میں کیا کیا۔ چوتھے روپیہ پیسہ کس کس طریقہ سے کمایا اور کہاں کہاں خرچ کیا 1۔ یہود نے ایک دن آنحضرت ﷺ سے کہا تھا کہ یعقوب (علیہ السلام) نے ہم کو یہودیت پر قائم رہنے کی وصیت کی ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور آیت کے مضمون سے اہل مکہ اہل کتاب دونوں کو قائل کیا عرب میں چچا کو باپ کہنے کا دستور ہے۔ اس لئے حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی اولاد نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اپنا باپ کہا۔
Top