Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 94
وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْۤا اِذْ جَآءَهُمُ الْهُدٰۤى اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا
وَمَا : اور نہیں مَنَعَ : روکا النَّاسَ : لوگ (جمع) اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا : کہ وہ ایمان لائیں اِذْ : جب جَآءَهُمُ : ان کے پاس آگئی الْهُدٰٓى : ہدایت اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَبَعَثَ : کیا بھیجا اللّٰهُ : اللہ بَشَرًا : ایک بشر رَّسُوْلًا : رسول
اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو ان کو ایمان لانے سے اس کے سوا کوئی چیز مانع نہ ہوئی کہ کہنے لگے کیا خدا نے آدمی کو پیغمبر کر کے بھیجا ہے ؟
94۔ 97:۔ اوپر کی آیتوں میں مشرکین مکہ کی سرکشی کی باتوں کا ذکر فرما کر ان آتیوں میں فرمایا بڑا سبب قرآن کی نصیحت کے نہ ماننے کا ان لوگوں کے نزدیک یہ ہے کہ یہ لوگ اس بات کو خلاف عقل جانتے ہیں کہ اللہ کا رسول کوئی انسان ہوسکتا ہے ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اللہ کا رسول فرشتہ ہونا چاہئے حالانکہ یہود کی باتوں کو یہ لوگ بہت مانتے ہیں اور یہود سے اکثر یہ لوگ سن چکے ہیں بنی اسرائیل کے رسول موسیٰ (علیہ السلام) تھے پھر بھی شیطان کے بہکانے سے یہ لوگ ایک ظاہر بات کو خلاف عقل جانتے ہیں اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو جس طرح بنی آدم زمین پر رہتے ہیں اسی طرح فرشتے بھی اگر زمین پر بستے ہوتے اور فرشتوں کا اصلی صورت میں دیکھنا انسان کی طاقت سے باہر نہ ہوتا تو ان کے پاس کوئی فرشتہ رسول بنا کر بھیج دیا جاتا اب اگر کوئی فرشتہ رسول بنا کر بھیجا بھی جائے تو وہ ضرور انسان کی صو رت میں ہوگا اور پھر ان لوگوں کا وہی شبہ باقی رہے گا جو اس وقت ہے سورة الانعام کی آیتوں میں یہ مضمون تفصیل سے گزر چکا ہے وہ آیتیں گویا ان آیتوں کی تفسیر ہیں جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا آگے فرمایا اے رسول اللہ کے ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دو کہ فرشتہ کی گواہی کچھ اللہ کی گواہی سے بڑھ کر نہیں میں اپنے رسول ہونے پر اللہ کی گواہی پیش کرتا ہوں اور اللہ کی گواہی کا ثبوت یہ ہے کہ اسلام کی جن باتوں کی میں نصیحت کرتا ہوں اللہ کی مدد سے ان باتوں کی روز بروز ترقی ہوتی جاتی ہے اور اسلام کے بر خلاف باتیں روز بروز دنیا سے اٹھ رہی ہیں اور یہ بھی کہہ دو کہ اللہ اپنے بندوں کے ذرا ذرا حال سے خبردار اور ان کے سب کاموں کو دیکھتا ہے میں جو تم کو نصیحت کرتا ہوں وہ بھی اس کو معلوم ہے اور تم بغیر کسی سند کے زبردستی جو مجھ کو جھٹلاتے ہو وہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں ہے وقت مقررہ پر ان سب باتوں کا فیصلہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا آگے فرمایا اللہ کے علم غیب میں جو لوگ راہ راست پر آنے والے ٹھہر چکے ہیں وہی نیک کاموں کا ارادہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں نیک کاموں کی توفیق دیتا ہے اور جو لوگ اللہ کے علم غیب میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں ان کو کوئی نصیحت کرنے والا راہ راست پر نہیں لاسکتا اس لیے وہ لوگ اسی گمراہی کی حالت میں مرجائیں گے اور قیامت کے دن وہ میدان محشر تک تو بجائے پیروں کے منہ کے بل چلیں گے اور پھر اوندھے منہ گھسیٹے جاکر دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے جہاں سوا ہر وقت کے عذاب کے آنکھوں سے کسی نجات کی صورت کے دیکھنے سے وہ اندھے اور کانوں سے سننے سے بہرے اور زبان پر لانے سے گونگے ہوں گے۔ قبروں سے میدان محشر تک ایسے لوگوں کے منہ کے بل چلنے کا حال تو ان آیتوں میں ہے اور اوندھے منہ گھسیٹے جا کر دوزخ میں ڈالے جانے کا حال سورة قمر میں آئے گا۔ صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بعضے صحابہ ؓ نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ قیامت کے دن دوزخی لوگ منہ کے بل کس طرح چلیں گے آپ نے فرمایا جو پیروں کے بل چلانے پر قادر ہے اس دن وہی منہ کے بل چلانے پر قدرت رکھتا ہے 1 ؎۔ اس سے معلوم ہوا کہ حاضر پر غائب کا قیاس کر کے غیب کی باتوں میں عقل نہیں دوڑانی چاہئے عذاب قبر حشر پل صراط عذاب دوزخ یہ سب غیب کی باتیں ہیں شریعت میں جس طرح یہ باتیں آئی ہیں بغیر عقلی دخل کے ان کا یقین کرنا ایماندار آدمی کا کام ہے۔ سورة الزخرف میں آئے گا کہ دوزخ کی آگ کی تیزی کبھی کم نہ ہوگی۔ ترمذی ابن ماجہ مؤطا وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ کی آگ کی تیزی قائم رہنے کے لیے اس کو تین ہزار برس تک دہکایا گیا ہے 2 ؎۔ حاصل یہ ہے کہ دوزخ کی آگ کی ذاتی تیزی تو کبھی نہ کم ہوگی نہ وہ آگ کبھی بجھے گی لیکن دوزخیوں کے ایک کھال کے جل جانے کے سبب سے جس جلی ہوئی کھال پر آگ کی تیزی کم معلوم ہوگی تو فورا دوسری کھال بدلی جاکر آگ کو تیز کردیا جائے گا۔ اس تفسیر سے ان آیتوں اور صحیح بخاری ومسلم کی ابو سعید خدری ؓ کی روایت کے حوالہ سے یہ بھی گزر چکا ہے کہ کھالیں ان لوگوں کی بدلی جائیں گی جو حشر کے منکر ہونے کے سبب سے ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے ہیں اور جو لوگ دوزخ سے نکل کر جنت میں داخل ہونے والے ہیں ان کی کھال نہیں بدلی جائے گی بلکہ وہ ایک دفعہ کے جلنے میں مر کر کوئلے ہوجائیں گے پھر ان کوئلوں کو دوبارہ زندہ کیا جا کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ 3 ؎ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 65 ج 3۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 502 باب صنقہ النار واہلہا۔ 3 ؎ تفسیر ہذاص 332 ج 1۔
Top