Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 90
وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًاۙ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَنْ نُّؤْمِنَ : ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے لَكَ : تجھ پر حَتّٰى : یہانتک کہ تَفْجُرَ : تو رواں کردے لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَرْضِ : زمین سے يَنْۢبُوْعًا : کوئی چشمہ
اور کہنے لگے کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ (عجیب و غریب باتیں نہ دکھاؤ یعنی یا تو) ہمارے لئے زمین میں سے چشمہ جاری کردو۔
90۔ 93:۔ تفسیر ابن جریر میں کئی سند سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت سے اور سنن سعید بن منصور میں سعید بن جبیر سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک روز ابوجہل اور چند قریش نے جمع ہو کر آنحضرت سے کہا سردار تم کو بنانے کو موجود ہیں اور اگر خلل دماغ کے سبب سے ایسی باتیں کرتے ہو تو اس کا علاج بھی ہوسکتا ہے آنحضرت ﷺ نے جواب دیا کہ ان باتوں میں سے ایک بات بھی نہیں ہے بات فقط اتنی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تم لوگوں کو اللہ کا حکم سناتا ہوں اگر تم مانو گے تو تمہارے لیے اچھا ہے ورنہ تم جانو یہ سن کر انہوں نے ضد سے کہا اچھا اگر تم سچے رسول ہو تو اس مکہ کی سرزمین پر باغ لگا دو نہریں جاری کرا دو یا اپنا گھر سونے کا بنالو ہمارے سامنے آسمان پر چڑھ جاؤ یا اللہ اور فرشتے ہمارے روبرو آن کر تمہارے رسول ہونے کی گواہی دیویں یا اللہ کی طرف سے کوئی ٹکڑا عذاب کے طور پر گرا دو ۔ ان باتوں پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں 1 ؎۔ یہ سعید بن منصور 200 ء اور شروع 300 کے علماء میں مشہور ثقہ عالم ہیں یہ امام مالک (رح) کے شاگرد اور امام احمد بن حنبل (رح) کے استاد ہیں جب ان کا ذکر آتا تھا تو امام احمد (رح) ان کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ امام مسلم اور ابوداؤد نے بھی ان سے حدیث کی روایتیں لی ہیں غرض ان کے زمانہ کے علماء نے ان کو ثقہ اور ان کی تصنیف کی کتابوں کو معتبر ٹھہرایا ہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ معجزہ کا ظاہر کرنا اللہ کے اختیار میں ہے رسول کا اس میں کچھ اختیار نہیں ہے اور اللہ کی درگاہ میں ہر کام کا وقت مقرر ہے۔ چناچہ ویسا ہی ہوا اللہ کی طرف سے جب وقت مقررہ آگیا تو سب ضد جاتی فرشتوں کے رسول بن کر آنے کی ضرورت پڑی نہ کسی اور معجزہ کی ضرورت پڑی غرض یہ اللہ کے بھید اللہ ہی جانتا ہے۔ جس وقت قریش نے آنحضرت سے یہ ضد کی باتیں کیں اس وقت اللہ کے علم غیب میں یہ بھید تھا کہ اس جماعت میں سے تھوڑے آدمی تو کچھ دنوں کے بعد بغیر کسی معجزہ کے خود بخود مسلمان ہونے والے ہیں ان کو معجزہ کی ضرورت نہیں اسی بھید سے اللہ تعالیٰ نے اس وقت کی ان لوگوں کی ضد پر کوئی معجزہ ظاہر نہیں فرمایا بلکہ اتنے جواب پر ان لوگوں کی ضد کو ٹال دیا کہ معجزہ رسول ﷺ کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ اگر اس وقت ان لوگوں کی ضد پر کوئی معجزہ ظاہر ہوجاتا تو وقت مقرہ سے پہلے ان میں کسی کا اسلام لانا تو ممکن نہیں تھا اسی طرح ان میں سے جن لوگوں کا حالت کفر پر مرنا اللہ کے علم غیب میں ٹھہر چکا تھا وہ ہزاروں معجزے دیکھ کر بھی اسی کفر پر مرنے تھے پھر جب ان میں سے کوئی شخص بھی معجزہ کو دیکھ کر ایمان نہ لاتا تو اسی روز عذاب آن کر سارا مکہ غارت ہوجاتا کیونکہ یہ عادت الٰہی ہے کہ ثمود کی اونٹنی کی طرح اس طرح کی ضد کے بعد کوئی معجزہ ظاہر ہو اور پھر وہ قوم ایمان نہ لائے تو فورا وہ سب قوم غارت ہوجاتی ہے او تاتی باللہ والملائکۃ قبیلا کی تفسیر ابن جریج نے یہ بیان کی ہے کہ اللہ اور فرشتے تمہارے رسول ہونے کی ضمانت دیویں۔ ترجمہ میں شاہ صاحب نے یہی قول لیا ہے لیکن اس آیت کی تفسیر میں مجاہد کا قول وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ اللہ اور فرشتے ہمارے روبرو آن کر تمہارے رسول ہونے کی گواہی دیویں۔ اس تفسیر میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے شاگردوں میں مجاہد کے قول کا بڑا اعتبار ہے اس لیے حافظ ابو جعفر ابن جریر (رح) نے اپنی تفسیر میں مجاہد کے قول کو ابن جریج کے قول پر ترجیح دی ہے اور باقی کے دونوں ترجموں میں اس لیے یہی قول لیا گیا ہے۔ اس واسطے اس تفسیر میں وہی قول لیا گیا کیونکہ یہ عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج اگرچہ مجاہد کے شاگردوں میں ہیں ‘ لیکن ان کو مجاہد سے تفسیر کی روایتوں کے لینے کا زیادہ موقع نہیں ملا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے 2 ؎۔ کہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو راہ راست پر آنے کے لیے مہلت دیتا ہے اور مہلت کے زمانہ میں جب وہ لوگ راہ راست پر نہیں آتے تو کسی سخت عذاب میں پکڑ کر ان کو ہلاک کردیتا ہے۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اہل مکہ نے ایسی سرکشی اور نافرمانی کی بہت سی باتیں کیں جیسی باتوں کا ذکر ان آیتوں میں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت کے موافق تیرہ چودہ برس ان لوگوں کو مہلت دی اور اس مہلت کے زمانہ میں تیرہ برس تک ان کو طرح طرح سے سمجھایا گیا۔ جب یہ لوگ اپنی سرکشی اور نافرمانی سے باز نہ آئے تو بدر کی لڑائی کے وقت ان پر یہ آفت آئی کہ ان کے بڑے بڑے سرکش دنیا میں بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتلانے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدے کو سچا پایا۔ چناچہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے یہ قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے 3 ؎۔ بعد اس کے مکہ کی گلی گلی میں اسلام پھیل گیا اور ان سرکشی کی باتوں کا کہیں نشان تک مکہ میں باقی نہ رہا۔ 1 ؎ مثلا تفسیر ہذاص 53 ج 3۔ 2 ؎ مثلا تفسیر ہذاص 53 ج 3۔ 3 ؎ مثلا تفسیر ہذاص 23 ج 3۔
Top