Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 83
وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِهٖ١ۚ وَ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یَئُوْسًا
وَاِذَآ : اور جب اَنْعَمْنَا : ہم نعمت بخشتے ہیں عَلَي : پر۔ کو الْاِنْسَانِ : انسان اَعْرَضَ : وہ روگردان ہوجاتا ہے وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ : اور پہلو پھیر لیتا ہے وَاِذَا : اور جب مَسَّهُ : اسے پہنچتی ہے الشَّرُّ : برائی كَانَ : وہ ہوجاتا ہے يَئُوْسًا : مایوس
اور جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو روگرداں ہوجاتا اور پہلو بھیر لیتا ہے۔ اور جب اسے سختی پہنچتی ہے تو ناامید ہوجاتا ہے۔
83۔ 84:۔ اس آیت میں اللہ پاک نے انسان کی ناشکری کا بیان فرمایا کہ جب ہم انسان پر اپنی نعمت نازل کرتے ہیں اس کو صحت و تندرستی بخشتے ہیں اس کی روزی میں ترقی کرتے ہیں فارغ البالی دیتے ہیں اور وہ وہ انعام اس پر کرتے ہیں جس کا شکر ہر گھڑی اور ہر آن واجب ہوتا ہے تو وہ ہم سے روگردان ہوجاتا ہے اور جب کوئی بلا اس پر نازل ہوتی ہے یا کوئی رنج اسے پہنچتا ہے تو پھر اسے اس بات کی امید نہیں رہتی کہ کبھی یہ سختی کا وقت ٹل جائے گا۔ پھر آنحضرت ﷺ کو ارشاد ہوا کہ آپ ﷺ لوگوں سے کہہ دیں کہ تم ہر ایک آدمی اپنے اپنے طریقہ اور نیت کے موافق عمل کرتے رہو مطلب یہ ہے کہ جس کا نفس پاک وصاف ہے وہ اچھے عمل کرتا ہے اور جس کا نفس ناپاک وخبیث ہے وہ برے عمل کرتا ہے اس میں کفار کی مذمت ہے اور مؤمنین کی تعریف ہے پھر یہ فرمایا کہ اللہ پاک سب کو جانتا ہے کہ کون گمراہی میں ہے اور کون راہ یاب ہے کیونکہ وہ خالق ہر مخلوق کا ہے ہر ایک شخص کے بھید کو جانتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی مشرکین مکہ کا حال ہے کہ مثلا کشتی کے ڈوبنے کے خوف کے وقت جب اللہ تعالیٰ سے اس خوف کے ٹل جانے کے التجا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ ان کی وہ آفت ٹال دیتا تھا تو اس تکلیف کے رفع ہوجانے کے بعد راحت کے وقت یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو بالکل بھول جاتے تھے اور اللہ کی مدد پر ان لوگوں کو پورا بھروسہ نہیں تھا اس لیے تکلیف کے وقت بےصبری کے سبب سے ان لوگوں کے دل میں یہ امید باقی نہیں رہتی تھی کہ یہ سختی کا وقت ٹل جائے گا لیکن اس آیت میں یہ تنبیہ ہے کہ ہر ایماندار آدمی کو اس عادت سے بچنا چاہئے کیونکہ ایماندار آدمی کی شان یہی ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے صہیب رومی ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ایماندار آدمی کی نشانی یہ ہے کہ وہ تکلیف کے وقت کے ٹل جانے کا بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کر کے ایسے وقت پر صبر کرتا ہے اور راحت کے وقت ہر طرح کی شکر گزاری سے اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتا ہے 1 ؎ مشرکین مکہ کا حال بیان فرما کر ایماندار شخص کو جو تنبیہ آیت میں کی گئی ہے اس کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ مسند امام احمد نسائی اور دارمی میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک دن اللہ کے رسول ﷺ نے ایک خط کھینچ کر فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے اور پھر اس خط کے دائیں بائیں اور خط کھینچ کر فرمایا اس سب راستوں پر شیطان کا دخل ہے 2 ؎۔ ترمذی میں عبداللہ بن عمرو ؓ سے اور مسند امام احمد ابو داؤد اور مستدرک حاکم میں معاویہ ؓ سے جو صحیح روایتیں ہیں ان میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جس طریقہ پر میں اور میرے صحابہ ؓ ہیں وہی راستہ نجات کا ہے 3 ؎۔ یہ حدیثیں بمن ھو اھدی سبیلا کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں جو ہدایت کا راستہ تھا وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بتلایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے وہ راستہ امت کے لوگوں کو بتلایا اب اس راستہ کے برخلاف جبریہ قدریہ لوگوں کے جتنے راستے ہیں ان سب میں شیطان کا دخل ہے۔ ترمذی کی عبداللہ بن عمرو ؓ کی حدیث کی سند میں ایک لکھا اور یحییٰ بن سعید القطان نے اسے ثقہ قرار دیا ہے اس واسط ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے علاوہ اس کے معاویہ ؓ کی صحیح حدیث سے بھی اس حدیث کو تقویت ہوجاتی ہے۔ 1 ؎ تفسیر ہذاص 24 ج 3۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 30 باب کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔ 3 ؎ ملا حظہ ہو مشکوٰۃ ص 30 باب الاعتصام مالکتاب والسنۃ فصل دوسری۔
Top