Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 79
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ١ۖۗ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا
وَمِنَ : اور کچھ حصہ الَّيْلِ : رات فَتَهَجَّدْ : سو بیدار رہیں بِهٖ : اس (قرآن) کے ساتھ نَافِلَةً : نفل (زائد) لَّكَ : تمہارے لیے عَسٰٓي : قریب اَنْ يَّبْعَثَكَ : کہ تمہیں کھڑا کرے رَبُّكَ : تمہارا رب مَقَامًا مَّحْمُوْدًا : مقام محمود
اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو (اور تہجد کی نماز پڑھا کرو یہ شب خیزی) تمہارے لئے (سبب) زیادت (ثواب) ہے اور قریب ہے کہ خدا تم کو مقام محمود میں داخل کرے۔
79:۔ معتبر سند سے مسند امام احمد اور ترمذی میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ صحابہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ حضرت مقام محمود سے کیا مراد ہے آپ نے فرمایا کہ یہ وہ مقام ہے جو خدا کی طرف سے تمہارے نبی کو شفاعت کی دعا کرنے کے لیے ملا ہے 1 ؎۔ مسند امام احمد میں کعب بن مالک ؓ کی ایک روایت 2 ؎ بھی اسی مضمون کی ہے اس کی سند بھی معتبر ہے اور صحیح حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقام عرش معلی کے نیچے ہے مسلم وغیرہ کی صحیح حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے 3 ؎، کہ قیامت کے دن آنحضرت ﷺ شفاعت پہلے میدان محشر میں عام خلق اللہ کے لیے اس وقت ہوگی جب ایک میل کے فاصلہ کی بلندی پر آفتاب کے آجانے اور دوزخ کے میدان محشر میں لانے سے تمام اہل محشر گرمی اور پسینہ سے بہت تکلیف میں ہوں گے اور حضرت آدم ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ تک سب انبیاء کے پاس وہ لوگ شفاعت کی غرض سے جاویں گے اور سب انبیاء خدا کے غصہ سے ڈر کر شفاعت سے انکار کریں گے اور کہیں گے آج وہ دن ہے کہ کسی دوسرے کی شفاعت تو درکنار ہمیں اپنی ہی جان کا اندیشہ ہے پھر جب وہ لوگ آنحضرت ﷺ کے پاس آویں گے تو آپ شفاعت کا ذمہ لیں گے اور مقام محمود میں جاکر سجدہ کریں گے اور شفاعت کی التجا کریں گے اللہ تعالیٰ آپ کی التجا کو قبول کرے گا یہ شفاعت اس بات کی ہوگی کہ لوگوں کا حساب و کتاب ہو کر اعمال کے موافق سزا وجزا ہوجائے اور میدان محشر سے لوگوں کا چھٹکارہ ہو اس شفاعت کو شفاعت عامہ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ شفاعت امت محمدی کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ تمام اہل محشر کی شفاعت ہے اب اس کے بعد پل صراط پر گزرتے وقت امت محمدی میں کے بعضے گنہگار جو دوزخ میں گر پڑیں گے اور آپ اللہ سے شفاعت کر کے جس کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہوگا اس کو جنت میں داخل کرا دیں گے یہ دوسری شفاعت ہے جو امت محمد یہ کے لیے خاص طور پر آپ فرمائیں گے یہ دوسری قسم کی شفاعت ملائکہ اور انبیاء اور ہر امت کے نیک لوگ بھی کریں گے مگر پہلی شفاعت آنحضرت ﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے اسی دوسری قسم کی شفاعت کا انکار عمرو بن عبید اور اس کے پیرو معتزلے فرقہ نے کیا ہے اور اہل سنت نے ان کا جواب طرح طرح سے دیا ہے فرقہ معتزلہ کے سر کردہ عمرو بن عبید نے جب شفاعت کا انکار کیا تو ثابت بنانی اور بزرگوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص قرآن کی ایک آیت کو چھری سے چھیل رہا ہے جب عمرو بن عبید سے اس خواب کا ذکر آیا تو اس نے جواب دیا کہ جس آیت کو میں چھیلتا ہوں اس سے اچھی آیت اس کی جگہ جماتا ہوں۔ غرض حسن بصری سے منحرف ہونے سے پہلے یہ عمرو بن عبید بڑے زاہد اور عالم مشہور تھے پھر عقیدہ مگر گیا اور واصل بن عطاء اور یہ عمرو بن عبید اپنے استاد حسن بصری منحرف ہوگئے خدا کو بگاڑتے دیر نہیں لگتی نہ بناتے یہ ثابت بن اسلم بنانی ثقہ تابعیوں میں ہیں اور حدیث کی سب کتابوں میں ان سے روایت ہے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ اور ابو سعید خدری ؓ سے جو روایتیں ہیں 4 ؎، ان میں عام شفاعت اور خاص شفاعت کا ذکر تفصیل سے ہے۔ 1 ؎ تفسر بان کثیرص 57 ج 3۔ 2 ؎ تفسیرابن کثیرص 57 ج 3۔ 3 ؎ تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر بان کثیرص 55۔ 58 ج 3۔ 4 ؎ مشکوٰۃ ص 489۔ 49 باب الحوض والشفاعۃ۔
Top