Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 74
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَیْهِمْ شَیْئًا قَلِیْلًاۗۙ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ اَنْ : یہ کہ ثَبَّتْنٰكَ : ہم تمہیں ثابت قدم رکھتے لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ : البتہ تم جھکنے لگتے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف شَيْئًا : کچھ قَلِيْلًا : تھوڑا
اور اگر ہم تم کو ثابت قدم نہ رہنے دیتے تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے۔
74۔ 75:۔ تفسیر ابن ابی حاتم، تفسیر ابن مردویہ اور تفسیر ابوالشیخ میں سعید ؓ بن جبیر سے جو شان نزول اس آیت کی اور اوپر کی آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے آنحضرت ﷺ کو حجر اسود کو ہاتھ لگاتے اور چھوتے ہوئے دیکھ کر یہ کہا کہ جس طرح ایک پتھر حجر اسود ہے ویسا ہی ہمارے بت پتھر ہیں اگر ایک دفعہ آپ ہمارے بتوں کو حجر اسود کے چھونے کی طرح ہاتھ لگا لیویں تو ہم آپ کو حجر اسود کو آئندہ چھونے دیں گے ورنہ ہم حجر اسود کو بھی آپ کو ہاتھ نہ لگانے دیں گے 1 ؎۔ مشرکین کی یہ بات سن کر آپ کے دل میں ایک وسوسہ اور پس وپیش تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کا پس وپیش رفع کرنے اور مشرکوں کے بہکاوے سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ آیتیں نازل فرمائیں اس شان نزول کی سند میں کسی طرح کا کلام نہیں ہے اور ابن ابی حاتم کا اس شان نزول کو اپنی تفسیر میں ذکر کرنا بھی ایک رفع وسوسہ کی بات ہے ‘ کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودّ ؓ کی دو روایتوں کے بعضے طریق جن میں کچھ تردد تھا ان کو ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر کی صحت کے خیال سے خود چھوڑ دیا ہے یہ وہ طریق ہیں جن کو حاکم نے اپنی مستدرک کی کتاب التفسیر میں لیا ہے اور ابن ابی حاتم نے چھوڑ دیا ہے اسی واسطے ابن ابی حاتم کی تفسیر کا درجہ مستدرک حاکم سے زیادہ شمار کیا جاتا ہے جلال الدین سیوطی نے اتقان میں اس بحث کو تفصیل سے لکھا ہے۔ اور اسباب نزول میں اس شان نزول کے راویوں کی ثقاہت بھی بیان کی ہے معالم التنزیل میں بغوی نے بھی اس شان نزول کو ذکر کیا ہے اور جامع البیان ‘ خازن وغیرہ میں بھی یہ شان نزول ہے صحیح مسلم میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے جس میں کے رسول ﷺ نے فرمایا ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان تعینات ہے۔ فرشتہ نیک کاموں کی ترغیب دلاتا رہتا ہے اور شیطان برے کا موں کی۔ اس پر صحابہ ؓ نے پوچھا کہ کیا حضرت آپ کے ساتھ بھی شیطان تعینات ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ہے تو سہی مگر اللہ کی مدد سے مجھ کو وہ نیک کام کا مشورہ دیتا رہتا ہے۔ کسی برے کام کی ترغیب نہیں دلا سکتا 2 ؎۔ یہ حدیث ولو لا ان ثبتناک کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے تمہارے ساتھ شیطان جو تعینات ہے اگر اللہ اس کو برے کام کی ترغیب سے روک کے اس سے فرشتہ کا کام نہ لیتا تو تم مشرکوں کا کہنا ماننے کی طرف کسی قدر مائل ہوجاتے لیکن اللہ کے انتظام نے تم کو اس چوک سے اس لیے بچایا کہ انبیاء کے مرتبہ کے موافق جس طرح ان کے نیک کاموں کا اجر اللہ کی بارگاہ میں زیادہ ہے اسی طرح ان کی چوک کی پکڑ بھی زیادہ ہے اور اس کی پکڑ سے کوئی کسی کو چھڑا نہیں سکتا۔ 1 ؎ تفسیر الدر المتثور ص 194 ج 4۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 18 باب فی الوستہ۔
Top