Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 72
وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا
وَمَنْ : اور جو كَانَ : رہا فِيْ هٰذِهٖٓ : اس (دنیا) میں اَعْمٰى : اندھا فَهُوَ : پس وہ فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں اَعْمٰى : اندھا وَاَضَلُّ : اور بہت بھٹکا ہوا سَبِيْلًا : راستہ
اور جو شخص اس (دنیا) میں اندھا ہو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ اور (نجات کے) راستے سے بہت دور۔
72:۔ اوپر کی آیت میں اللہ پاک نے یہ بات بیان فرمائی تھی کہ آخرت میں جن لوگوں کے داہنے ہاتھ میں عمل کا کاغذ ہوگا وہ تو خوش ہو ہو کر پڑھیں گے اور دوسروں کو دکھلائیں گے۔ یہ لوگ وہ ہیں جن کے اعمال نیک ہیں اب بائیں ہاتھ میں جن کے نامہ اعمال دیئے جائیں گے ان کے حق میں یہ آیت ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں راہ حق سے دور رہے اور اچھے برے میں انہوں نے تمیز نہیں کی گویا اندھے تھے کہ خدا کی ظاہر قدرت کو بھی دیکھ کر ایمان نہیں لائے۔ آسمان و زمین دریا پہاڑ اور بہتیری مخلوق خدا نے بنائی ہے وہ کل خدا کی توحید ثابت کر رہی ہے ان میں کسی ایک کے دیکھنے سے بھی راہ یاب نہ ہوئے ایسا شخص آخرت میں اندھا ہوگا بلکہ اور بھی گمرا ہوگا کیونکہ اگر وہاں غور وفکر کرنے پر ایمان کا ارادہ کرے گا تو کچھ حاصل نہ ہوگا سورة الحاقہ میں آئے گا کہ جن لوگوں کے نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے جاویں گے وہ کہیں گے ہمارا نامہ اعمال اگر ہم کو نہ دیا جاتا تو اچھا ہوتا۔ سورة الحاقہ کی آیتوں سے اس آیت کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ اندھوں کی طرح نامہ اعمال کے پڑھنے سے گھبرائیں گی اس واسطے ان کو اندھا فرمایا۔ سورة الحاقہ کی آیتوں میں یہ بھی ہے کہ نامہ اعمال کے بائیں ہاتھ میں دیتے ہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہوجائے گا کہ یہ لوگ دوزخی ہیں اس لیے ان لوگوں کو بہشت کی راہ سے دور فرمایا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی 1 ؎ کہ جو بائیں ہاتھ کے اعمالنامہ والے اپنے گناہوں کا انکار کریں گے ان کے منہ پر خاموشی کی مہر لگائی جاکر ان کے ہاتھ پیروں سے سارے گناہوں کی گواہی ادا کرائی جائے گی اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس سے گناہوں کے منکر بائیں ہاتھ کے اعمالنامے والے لوگوں کا حال اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے۔ 1 ؎ صحیح مسلم ص 409 ج 2 فی بیان ان الا عضاء منطقتہ شاہدۃ الخ۔
Top