Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 71
یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْ١ۚ فَمَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ فَاُولٰٓئِكَ یَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
يَوْمَ : جس دن نَدْعُوْا : ہم بلائیں گے كُلَّ اُنَاسٍ : تمام لوگ بِاِمَامِهِمْ : ان کے پیشواؤں کے ساتھ فَمَنْ : پس جو اُوْتِيَ : دیا گیا كِتٰبَهٗ : اسکی کتاب بِيَمِيْنِهٖ : اس کے دائیں ہاتھ میں فَاُولٰٓئِكَ : تو وہ لوگ يَقْرَءُوْنَ : پڑھیں گے كِتٰبَهُمْ : اپنا اعمالنامہ وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور نہ وہ ظلم کیے جائیں گے فَتِيْلًا : ایک دھاگے کے برابر
جس دن ہم سب لوگوں کو انکے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے تو جن (کے اعمال) کی کتاب ان کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی وہ اپنی کتاب کو (خوش ہو ہو کر) پڑھیں گے اور ان پر دھاگے برابر بھی ظلم نہ ہوگا۔
71:۔ اس آیت کی تفسیر میں علماء مفسرین نے لفظ امام کے مختلف معنے لیے ہیں لیکن نامہ اعمال کے لفظ کے ساتھ لفظ امام کی تفسیر کا کرنا زیادہ صحیح ہے کس واسطے کہ یہ تفسیر ترمذی اور مسند بزار وغیرہ میں خود آنحضرت ﷺ سے آچکی ہے چناچہ ابوہریرہ ؓ سے ترمذی مسند بزار اور صحیح ابن حبان میں معتبر روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن بعضے لوگوں کو بلا کر ان کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا جس سے ایسے شخص کے منہ پر ایک طرح کا نور آجائے گا اس شخص کے سر پر ایک تاج رکھ دیا جائے گا جس جماعت سے یہ شخص بلایا گیا تھا اس جماعت میں واپس آن کر باقی کے لوگوں کو خوشخبری دیوے گا کہ ہماری ساری جماعت کے لوگوں کے ساتھ یہی معاملہ پیش آئے گا اور جماعت کے لوگ اس کو نجات کی مبارک بادی دیویں گے اور بعضے لوگوں کو ایک جماعت میں سے ہر ایک شخص کو بلا کر بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا جس سے اس شخص کا منہ کالا ہوجائے گا اور یہ شخص جس جماعت میں سے گیا تھا اس جماعت میں آنا چاہے گا تو باقی کے لوگ اس کو جھڑکیں گے کہ ہماری جماعت میں مت آؤ وہ جماعت والوں کو چھیڑے گا اور کہے گا جو میرا حال ہوا ہے وہی ساری جماعت کا حال ہونیوالا ہے 1 ؎۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر ؓ کی حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے 2 ؎۔ کہ ظلم اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے یہ حدیث ولا یظلمون فتیلا کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ظلم اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر حرام ٹھہرا لیا ہے اس واسطے قیامت کے دن اعمالناموں کے موافق جزا وسزا ہوگی کسی پر کچھ ظلم نہ ہوگا۔ شاہ صاحب نے ترجمہ میں امام کے معنے سردار کے جو قرار دیئے ہیں وہ مجاہد کے قول کے موافق ہیں باقی کے دونوں ترجموں میں بھی یہی مجاہد کا قول لیا گیا ہے اور حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اسی قول کو ترجیح دی ہے لیکن اوپر ابوہریرہ ؓ کی حدیث جو گذری حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے 3 ؎۔ 1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 194 ج 4۔ 2 ؎ تفسیر ہذاص 34 ج 3۔ 3 ؎ فتح البیان ص 804 ج 2۔
Top