Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 63
قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَاِنَّ جَهَنَّمَ جَزَآؤُكُمْ جَزَآءً مَّوْفُوْرًا
قَالَ : اس نے فرمایا اذْهَبْ : تو جا فَمَنْ : پس جس تَبِعَكَ : تیری پیروی کی مِنْهُمْ : ان میں سے فَاِنَّ : تو بیشک جَهَنَّمَ : جہنم جَزَآؤُكُمْ : تمہاری سزا جَزَآءً : سزا مَّوْفُوْرًا : بھرپور
خدا نے فرمایا (یہاں سے) چلا جا جو شخص ان میں سے تیری پیروی کرے گا تو تم سب کی جزاء جہنم ہے (اور وہ) بری سزا ہے۔
63۔ 65:۔ جب شیطان نے اللہ پاک سے بنی آدم کے بہکانے کی درخواست کی تو اللہ پاک نے اس کی درخواست کو قبول کیا اور جس وقت اسرائیل پہلی دفعہ صور پھونکیں گے اس وقت تک شیطان کو مہلت دی گئی اس کی غرض یہ تھی کہ نفخہ ثانیہ تک مہلت مل جاتی ‘ کیونکہ نفخہ ثانیہ کے بعد پھر کسی کو موت نہیں ہے مگر اللہ پاک نے اس مدت کی مہلت نہیں دی اور شیطان اور شیطان کی پیروی کرنیوالوں کے لیے جہنم کی سزا مقرر کر کے فرما دیا کہ جہاں تک تیرا زور چلے اور جتنا تجھ سے ممکن ہو بنی آدم کو بہکا اور کجرو بنا اور خدا کی نافرمانی کی طرف ان کو بلا پھر فرمایا کہ بنی آدم کے بہکانے کے واسطے چاہے تو اپنے سوار اور پیادوں کو چڑھا لا مطلب یہ ہے کہ جتنی تجھ کو قدرت ہو اتنا مکر و فریب کر کے ان کو بہکا یہ امر دارصل دھمکانے کے واسطے ہے جس طرح یوں کہا کرتے ہیں کہ اچھا جا جو کچھ تجھ سے بن سکے کر اور فرمایا کہ جا ان کے مال واولاد میں شراکت کر شراکت مال کی تو یہ ہے کہ مال اس طرح پر حاصل کیا ہو جس میں شرع کی مخالفت پائی ہو اور خرچ بھی ایسے ہی موقع ومحل پر کیا جائے جس میں اجازت شرعی نہیں ہے اور اولاد میں شیطان کی شراکت یہ ہے کہ مثلا ان کے نام ایسے رکھنا جو شرع میں ناجائز ہیں جیسے عبد الحارث وغیرہ یا ان کو خلاف شرع باتوں سے نہ روکنا۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابویرہ ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا شیطان آدمی کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ سب چیزیں تو اللہ نے پیدا کیں لیکن یہ نہیں معلوم ہوا کہ اللہ کو کس نے پیدا کیا 1 ؎۔ قل اعوذ برب الناس میں آوے گا کہ وسوسہ کے معنے اس دبی ہوئی ہلکی آواز کے ہیں جس آواز سے شیطان آدمی کے دل کے پاس گنگنا کر آدمی کو بہکاتا ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے جابر بن عبداللہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے 2 ؎۔ شیطان اپنا تخت سمندر کے پانی پر بچھا کر خود تو اس تخت پر بیٹھ جاتا ہے اور اپنے شیاطینوں کو اولاد آدم کے بہکانے کے لیے بھیج دیتا ہے۔ آیتوں میں شیطان کی آواز اور اس کے سوار اور پیادوں کا جو ذکر ہے اس کا مطلب ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شیطان دبی آواز سے آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالنے کے لیے اپنے شیاطینوں کو سوار پیدل جس طرح مناسب سمجھتا ہے بھیجتا رہتا ہے۔ سورة ابراہیم ( علیہ السلام) میں گذر چکا ہے کہ قیامت کے دن شیطان اس بات کا اقرار کرے گا کہ جن وعدوں سے وہ دنیا میں لوگوں کو بہکاتا تھا اس کے وہ سب وعدے جھوٹے ہیں۔ ترمذی نسائی صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم کی روایت سے حارث ؓ اشعری کی صحیح حدیث ایک جگہ گز چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جس طرح کسی مضبوط قلعہ میں چلے جانے سے کوئی لشکر دشمن کے حملہ سے محفوظ ہوجاتا ہے اسی طرح یاد الٰہی میں مصروف رہنے والے نیک لوگ شیطان کے پھندے سے بچے رہتے ہیں 3 ؎۔ کیونکہ ذکر الٰہی سے شیطان دور بھاگتا ہے۔ یہ حدیث آخری آیت کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یاد الٰہی میں مصروف رہنے والے بندے اللہ سے نزدیک اور شیطان کی حکومت سے دور رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا ہر ایک نیک ارادہ پورا کر کے عقبیٰ کے اجر کا ان کا ہر ایک کام بنا دیتا ہے۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 18 باب فی الوسوستہ۔ 2 ؎ تفسیر ہذاص 294 ج 3۔ 3 ؎ تفسیر مذاص 368‘ 369 ج 3۔
Top