Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Israa : 61
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں سے اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس قَالَ : اس نے کہا ءَاَسْجُدُ : کیا میں سجدہ کروں لِمَنْ : اس کو جسے خَلَقْتَ : تونے پیدا کیا طِيْنًا : مٹی سے
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا بولا بھلا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا۔
61۔ 62:۔ یہ قصہ قرآن میں سات جگہ آیا ہے اول سورة بقرہ میں پھر سورة اعراف میں اور پھر سورة حجر میں اور اس سورة بنی اسرائیل میں اور سورة کہف اور سورة طہ اور سورة ص میں۔ حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ اللہ پاک نے جس وقت حضرت آدم ( علیہ السلام) کو پیدا کیا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ تم سب کے سب حضرت آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ کرو اور ابلیس بھی قوم جنات میں سے ایک مقرب فرشتہ ہوگیا تھا اس نے اپنے کو بڑا جانا اور حضرت آدم ( علیہ السلام) کو حقیر سمجھ کر سجدہ کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ یا اللہ تو نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کو خاک سے پیدا کیا ہے اور میری پیدائش آگ خاک سے لطیف ہے اس لیے جوہر کثیف کو جوہر لطیف پر کسی طرح فضیلت نہیں ہوسکتی مگر اللہ پاک نے ابلیس کے اس بیہودہ قیاس کا کچھ جواب نہ دیا کیونکہ اس نے اپنے پیدا کرنے والے پر اعتراض کیا تھا اس کو حقیر جان کر چھوڑ دیا اور اسی نافرمانی اور عدول حکمی کی وجہ سے فرشتوں کی صف سے اس کو نکال دیا اور مردود درگاہ بنا دیا پھر اس نے قسم کھائی کہ میں اولاد آدم کو قیامت تک گمراہ اور نافرمان کروں گا اللہ پاک سے مہلت چاہی اور فقط اپنے گمان ہی گمان پر بنی آدم کے ورغلانے کا بیڑا اس نے اٹھا لیا اللہ پاک نے بھی اس کو مہلت دی اور فرما دیا کہ جو میرے خاص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں چلے گا یہی معنی ہیں الا قلیلا کے جس گروہ پر شیطان کا کچھ تسلط نہیں ہوتا وہ گروہ انبیاء کا ہے اور امت کے اولیاء اور صالحین بھی اس کے دھوکے سے علیحدہ رہتے ہی ان کے علاوہ ہر شخص کے دل میں گھس کر شیطان طرح طرح کا وسوسہ ڈال ڈال کر صراط مستقیم سے ان کو بہکاتا ہے اور طرح طرح کے مکرو فریب سے انسان کو اپنے قبضہ میں لاتا ہے اور جو دعویٰ اس نے آدم ( علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت میں کیا تھا اس کے پورا کرنے میں کچھ کمی نہیں کرتا اللہ اس کے شر سے بچائے۔ حسن بصری ابن سیرین اور اکثر سلف کا قول ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو قبلہ ٹھہرا کر اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کو یہ حکم تھا۔ معتبر سند سے مسند امام احمد ترمذی اور ابوداؤد میں ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا آدم (علیہ السلام) کے پتلے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمام زمین کی مٹی لی ہے اسی واسطے ان کی اولاد میں کوئی گورا ہے کوئی کالا ہے۔ مسند امام احمد اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے ابوسعید ؓ بخاری کی صحیح حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے 1 ؎۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ مہلت کے منظور ہوجانے کے بعد شیطان نے جب اللہ تعالیٰ کے روبرو اولاد آدم ( علیہ السلام) کے بہکانے کی قسم کھائی تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے جاہ و جلال کی قسم کھا کر توبہ و استغفار کرنے والے گناہ گاروں کے گناہ معاف فرما دینے کا وعدہ فرمایا اس حدیت کو آیت کی تفسیر میں یہ دخل ہے کہ اس سے مہلت کے بعد کا حال اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عائشہ ؓ کی حدیث سورة الاعراف میں گزر چکی ہے 2 ؎۔ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا فرشتے نور سے پیدا کیے گئے اور شیطان آگ کے شعلے اور فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں، ان حدیثوں سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کا پتلا مٹی سے بنایا گیا ہے اور شیطان آگ کے شعلے اور فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اس لیے شیطان فرشتوں میں سے نہیں ہے کیونکہ نور میں اور آگ کے شعلہ میں بڑا فرق ہے اسی واسطے اللہ کے رسول ﷺ نے فرشتوں اور شیطان کی پیدائش کا جدا جدا ذکر فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے صحیح قول کے موافق لاحتنکن کے معنے غلبہ حاصل کرنے کے ہیں 3 ؎ اسی قول کا ترجمہ ڈھانٹی دینے کا کیا گیا ہے جس کا مطلت غلبہ حاصل کرنے کا ہے۔ 1 ؎ مثلا تفسیر ہذاص 294 ج 3۔ 2 ؎ تفسیر ہذاص 234۔ 235 ج 2۔ 3 ؎ تفسیر بان کثیرص 49 ج 3۔
Top